خبریں

سعودی عسکری اتحاد کے اپنے ہی سابقہ یمنی اتحادیوں پر بڑے حملے

یمن میں سعودی عسکری اتحاد نے اپنے ہی سابقہ اتحادیوں پر بڑے فضائی حملے کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں تازہ لڑائی میں مزید کم از کم چالیس افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا  

یمن کے شہر عدن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی طرف سے عدن میں صدارتی محل پر کیا جانے والا قبضہ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحادکی طرف سے ان علیحدگی پسندوں کے خلاف شدید نوعیت کے فضائی حملوں کی وجہ بنا۔ اس نئی پیش رفت کو سعودی حکومت کے لیے عسکری حوالے سے ایک بڑا دھچکا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا کے اس غریب ترین اور کئی سالہ خانہ جنگی سے تباہ حال ملک میں اب سعودی عرب کی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد اپنی انہی سابقہ اتحادی قوتوں کے خلاف ہو گیا ہے، جو ماضی میں صدر منصور ہادی کی حلیف تھیں۔ ان حملوں سے قبل ان عسکری طاقتوں نے عدن کے بندرگاہی شہر کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

Published: undefined

یمنی خانہ جنگی میں اس بات کو ایک نیا اور انتہائی خطرناک موڑ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنوبی یمن میں مسلح جنگجوؤں کی وہ عبوری کونسل جو ایس ٹی سی (سدرن ٹرانزیشنل کونسل) کہلاتی ہے، پہلے صدر منصور ہادی کی مخالف حوثی شیعہ ملیشا کے خلاف لڑ رہی تھی لیکن اب اس نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں بلکہ وہ جنوبی یمن میں اپنی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی خواہش مند بھی ہے۔

Published: undefined

ریاض حکومت کی طرف سے ان یمنی علیحدگی پسندوں کے خلاف نئے فضائی حملوں کے بعد کہا گیا کہ ان کارروائیوں میں ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جو صدر منصوری ہادی کی حکومت کے لیے 'براہ راست خطرہ‘ تھے۔ اس بارے میں سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن نے عسکری اتحاد کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا، ''یہ حملے پہلی براہ راست کارروائی تھے، جس کے بعد آئندہ ان علیحدگی پسندوں کے خلاف مزید کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔‘‘

Published: undefined

ساتھ ہی جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے جنگجوؤں کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب بھی ان کے پاس ایک آخری موقع ہے کہ وہ اپنی عسکری پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دوسری طرف اس نئی صورت حال پر غور اور یمن کے مسلح تنازعے کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ریاض حکومت نے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

Published: undefined

جنوبی یمن کے مسلح علیحدگی پسندوں نے کل ہفتہ دس اگست کو عدن شہر پر حملہ کر کے تین فوجی چھاؤنیوں اور صدارتی محل کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس دوران انہیں مبینہ طور پر کسی بڑی عسکری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لیے کہ تینوں چھاؤنیوں اور صدارتی محل میں موجود مسلح دستوں نے یا تو یہ سب جگہیں بغیر لڑے ہوئے ہی خالی کر دی تھیں یا پھر وہ جزوی طور پر ان علیحدگی پسندوں سے مل گئے تھے۔

Published: undefined

سعودی عرب کے لیے، جو یمن کی خانہ جنگی میں 2015ء سے صدر منصور ہادی کا اتحادی اور ایران نواز حوثی باغیوں کا مخالف ہے، یہ صورت حال اس لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے کہ حوثی باغیوں نے جب صنعاء پر قبضہ کیا تھا تو یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر ہادی فرار ہو کر عدن چلے گئے تھے۔ تب سے انہوں نے عدن کو ہی اپنی انتظامیہ کا عبوری دارالحکومت بنا رکھا ہے۔ یوں سعودی رہنماؤں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ صنعاء پر حوثیوں کا قبضہ ہو اور عدن پر بھی جنوب کے علیحدگی پسند قابض ہو جائیں۔

Published: undefined

اسی دوران صدر منصور ہادی، جو اپنی حکومت کے زیادہ تر وزراء کے ساتھ سعودی دارالحکومت ریاض میں مقیم ہیں، کی حکومت نے عدن پر ایس ٹی سی کے علیحدگی پسندوں کے قبضے کو 'حکومت کے خلاف بغاوت‘ کا نام دیا ہے۔ دریں اثناء حوثی باغیوں کی قائم کردہ متوازی انتظامیہ میں نائب وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز حسین العزی نے کہا ہے کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ یمن میں اثر و رسوخ کی حامل تمام قوتیں آپس میں سنجیدہ مذاکرات شروع کریں تاکہ اس ملک کو ایک 'وفاقی ریاست‘ بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''یمن کو ایک ایسی وفاقی ریاست ہونا چاہیے، جس میں تمام دھڑوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہو۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined