اس روسی خاتون شہری کو ماسکو کے امریکی سفارت خانے میں ملازمت اس امریکی سیکرٹ سروس نے دی تھی، جو اپنے فرائض کے لحاظ سے امریکی صدر کی سلامتی کی ذمے دار ہوتی ہے۔ برطانوی اخبار ’ٹیلیگراف‘ اور امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹوں کے مطابق اس روسی شہری کے ممکنہ طور پر ایک جاسوس ہونے کا شبہ امریکی حکام کو اس وقت ہوا، جب واشنگٹن میں ملکی وزارت خارجہ کے حکام نے معمول کے مطابق امریکی سفارت خانوں کے ملازمین کا ’سکیورٹی چیک‘ کیا۔
Published: undefined
اس چھان بین کے نتیجے میں پتہ یہ چلا کہ ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی اس اہلکار نے روسی خفیہ سروس ایف ایس بی کے اہلکاروں کے ساتھ باقاعدگی سے کئی ایسی ملاقاتیں کی تھیں، جن کے لیے نہ تو کوئی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور جن کا نہ ہی کہیں کوئی ذکر تھا۔
Published: undefined
اس کے علاوہ اس خاتون کو سیکرٹ سروس کے ارکان کے ای میل سسٹم اور داخلی انٹرنیٹ یا ’انٹرانیٹ‘ تک بھی رسائی حاصل تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر حساس امریکی ڈیٹا اس خاتون کی پہنچ میں تھا۔ تاہم سی این این کے مطابق اس روسی شہری کو ایسی معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی، جنہیں سفارت خانے یا سیکرٹ سروس کی طرف سے ’انتہائی خفیہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
برطانوی جریدے ’ٹیلیگراف‘ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ اور سفارتی حلقوں میں ایک ایسے ذریعے نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا، بتایا کہ امریکی سیکرٹ سروس نے اس واقعے کا علم ہو جانے کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اس روسی جاسوس کو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی ملازمت سے فارغ بھی کر دیا گیا۔
Published: undefined
ظاہری طور پر اس روسی شہری کو باقاعدہ یہ کہہ کر ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا تھا کہ وہ ایک جاسوس ہے اور اس کی اصلیت کا امریکی حکام کو علم ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس اس جاسوس کو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کے قریب 750 دیگر ملازمین کے ساتھ نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
Published: undefined
ان سینکڑوں روسی ملازمین کو امریکی سفارت خانے نے اپنے ہاں ملازمتوں سے اس وجہ سے برطرف کر دیا تھا کہ تب ایسا روس پر لگائے گئے ان الزامات کے ردعمل میں کیا گیا تھا کہ ماسکو نے 2016ء کے امریکی صدارتی الیکشن میں مداخلت کی تھی۔
Published: undefined
سی این این کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ اس جاسوس کی اصلیت کا علم ہو جانے کے بعد امریکی سیکرٹ سروس نے اپنی طرف سے اس معاملے کی کوئی داخلی چھان بین بھی شروع نہیں کی تھی تاکہ اس روسی جاسوس کی وجہ سے امریکا کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات کا تعین کیا جا سکے۔
Published: undefined
اس بارے میں ’ٹیلیگراف‘ اور سی این این نے امریکی سیکرٹ سروس کے ایک وضاحتی بیان کا حوالہ بھی دیا ہے، جس میں محض اتنا ہی کہا گیا ہے، ’’تمام غیر ملکی ملازمین ممکنہ طور پر ایسے ہدف بن سکتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی سیکرٹ سروس ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔ لیکن ایسے ملازمین کبھی بھی ایسی حالت میں نہیں تھے کہ امریکا کی قومی سلامتی سے متعلق اہم معلومات ان کی دسترس میں رہی ہوں۔‘‘
Published: undefined
اس بارے میں اے ایف پی نے جب امریکی سیکرٹ سروس اور وزارت خارجہ سے رابطے کیے تو سیکرٹ سروس نے اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا جبکہ واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined