اپنی صحافتی کام کے دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا: طاقتور، کمزور، امیر، عام، خاص، سچے، جھوٹے وغیرہ۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ملے جن کی کہانیاں ذہن پر نقش ہوگئیں۔ انہی میں سے ایک عنصر علی ہے۔
Published: undefined
عنصر سے میری ملاقات سرگودھے کی تحصیل کوٹ مومن میں ایک رپوٹنگ اسائنمنٹ کے دوران ہوئی۔ پنجاب کا یہ زرخیز علاقہ مالٹوں، نارنگیوں اور کینو کی پیداور کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
Published: undefined
عنصر کی عمر تیس سے پینتیس سال ہوگی (وہ نہ تو اپنی سہی عمر جانتا ہے اور نہ ہی پڑھ لکھ سکتا ہے)۔ کچھ سال پہلے اس کا موٹر سائیکل کے ساتھ حادثہ ہوگیا، جس کے بعد سے وہ ذرا لنگڑا کر چلتا ہے۔ عنصر اور اس کی بیوی ایک زمیندار کے پاس روزانہ سولہ سے سترہ گھنٹے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ عنصر باہر کھیتوں میں زمین اور مال مویشی سنبھالتا ہے اور اس کی بیوی سارا دن زمیندار کے گھر میں کام کرتی ہے۔
Published: undefined
دونوں کو ماہانہ تین چار ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس تنخواہ میں ایک انسان کا گذر بسر بہت مشکل ہے۔ عنصر کو دو وقت کی روٹی کے لیے بار بار زمیندار سے قرض لینا پڑتا ہے۔ عنصر کے مطابق یہ زمیندار کوئی ظالم انسان نہیں۔ وہ مار پیٹ نہیں کرتا اور اگر غصہ آ بھی جائے تو ذرا ذرا سی بات پر گالم گلوچ نہیں کرتا۔ عنصر کے مالک نے اسے اپنی زمین پر دو کمروں کا گھر بھی دے رکھا ہے۔
Published: undefined
جب کبھی علاج معالجے کی ضرورت پڑ جائے، خوشی یا غم کا موقع ہو تو وہی ان کے کام آتا ہے اور مزید رقم دے دیتا ہے۔ لیکن ہوتا وہ قرض ہی ہے، جس کا ریکارڈ زمیندار اپنے پاس رکھتا ہے۔ عنصر صرف کاغذات پر انگوٹھا لگا دیتا ہے۔
Published: undefined
کچھ سال پہلے جب یہ قرض زیادہ بڑھ گیا تو زمیندار کی طرف سے دباؤ بھی بڑھ گیا۔ عنصر کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، تو اُس نے اپنا ایک گردہ فروخت کر ڈالا۔ مقامی ایجنٹ اور ہسپتال کے عملے نے اپنے بیس ہزار روپے کاٹ کر اُسے ایک لاکھ روپے پکڑا دیے۔ عنصر کا قرضہ کم ہوا، لیکن زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔
Published: undefined
چند برسوں کے اندر عنصر پر زمیندار کا قرضہ پھر چڑھ گیا تو اس بار اس نے اپنی بیوی کو گردہ بیچنے پر آمادہ کر لیا۔ ایک بار پھر انہوں نے چین کا سانس لیا، لیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا۔ ان تمام برسوں میں اس کے یہاں آٹھ پچے پیدا ہوئے۔ عنصر کے پاس خود دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی تو ایسے میں انہوں نے اتنے بچے کیوں پیدا کیے؟
Published: undefined
''یہ تو اوپر والے کی دین ہے،‘‘ اس نے کھسیانے انداز میں کہا۔ مجھے اس پر ترس آیا اور کچھ غصہ بھی۔ میں نے پوچھا، ''کبھی خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا سُنا ہے؟‘‘ تو اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
Published: undefined
سرگودھا کوئی سندھ یا بلوچستان کا دور افتادہ علاقہ نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاہور۔ اسلام آباد موٹروے سے متصل ایک تحصیل ہے۔ دل میں سوچا کہ اگر یہاں تک بھی خاندانی منصوبہ بندی والے نہیں پہنچ پائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں آبادی میں تیزی سے کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔
Published: undefined
بعض لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ بچے پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے کیونکہ اس سے دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اوپر والے نے ہر جاندار شہ تک رزق پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو ملک میں عنصر علی جیسے مقروض لیکن محنتی لوگ اور اس کے بچے فاقے کاٹنے پر کیوں مجبور ہیں؟
Published: undefined
عنصر کا کوئی بھی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ وہ خود ساری زندگی زمیندار کا مقروض رہا ہے۔ کیا اس کے بچوں کا بھی یہی مستقبل ہے؟ عنصر کا کہنا ہے کہ اسے کل کا پتہ نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کر لے غلامی کی اس زندگی سے شاید کبھی نہ نکل پائے۔
Published: undefined
اس دوران ملک میں مختلف حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن اس کا عنصر کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ فوجی ہو یا سولین ادوار، ملک کے سیاسی نظام پر طاقتور وڈیرے، زمیندار اور چودہری حاوی ہیں۔ زرعی اصلاحات کسی کے بھی ایجنڈے پر نہیں۔ ویسے بھی اس نظام سے مستفید ہونے والا طبقہ بھلا کیوں اسے ٹھیک کرنے لگا؟
Published: undefined
پاکستان میں قرض کی ان دیکھی زنجیروں میں کتنے لوگ غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، اس پر کوئی باوثوق سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ لیکن آسٹریلیا میں قائم عالمی تنظیم 'گلوبل سلیوری انڈیکس‘ کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد تیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
ان خاندانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کے شعبے سے وابستہ ہے جبکہ اینٹیں بنانے والے بھٹہ مزدور اور قالین کے صنعت سے وابستہ بچے اور خواتین بھی جدید دور میں انسانی غلامی کی مثال ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان تک محدود نہیں۔ بھارت، نیپال، بنگلادیش اور افغانستان میں بھی لاکھوں خاندان اس استحصالی نظام کا شکار ہیں۔
Published: undefined
قرض اتارنے کے لیے عنصر علی نے اپنا اور اپنی بیوی کے گردے تو بیچ دیے لیکن جوں جوں قرض دوبارہ بڑھ رہا ہے، اب وہ کیا کرے گا؟
Published: undefined
اس نے کہا، ''کوئی اور راستہ نہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرا یہ چھوٹا بچہ کچھ بڑا ہو جائے تو کہیں مجھے اس کا گردہ نہ بیچنا پڑجائے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined