خبریں

مودی کا خطاب ڈرامہ، غلط بیانی اور اپنی تعریف کے علاہ کچھ نہیں

ٹی ڈی پی کے ذریعہ پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں گر ضرور گئی لیکن حزب اختلاف اپنی بات رکھنے میں کامیاب رہا

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا  وزیر اعظم کی ایک فائل تصویر 

توقع کے عین مطابق مودی حکومت کے خلاف پہلی عدم اعتماد کی تحریک کافی زیادہ ووٹوں کے فرق سے گر گئی ۔ اس عدم اعتماد کی تحریک کا مقصد حکومت کو گرانا تھا بھی نہیں بلکہ ایوان میں حکومت کے خلاف اپنی بات رکھنا تھا جس میں حزب اختلاف کامیاب رہا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے عدم اعتماد کی تحریک پر جواب دیتے ہوئے وہی سب کچھ کیا جس کی ان سے امید کی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم کے خطاب میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، غلط بیانی سے کام لینا ، زبان اور عمل کے ذریعہ ڈرامہ کی شکل میں اپنی بات پیش کرنا اور اپنی حکومت کے ذریعہ جو کام نہیں بھی کئے گئے ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شامل تھا ۔ایوان نے حکومت میں اعتماد کا اظہار ضرور کیا لیکن حزب اختلاف اپنا واضح پیغام دینے میں کامیاب رہا۔ تحریک پر بولتے ہوئے جہاں کانگریس صدر راہل گاندھی نے بغیر نوٹس کا سہارا لئے ہوئے ایوان سے خطاب کیا وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے نوٹس سے نگاہ اٹھانے کی فرصت نہیں ملی جو ایک واضح تبدیلی تھی اور جس سے صاف ظاہر تھا کہ وزیر اعظم اس عدم اعتماد کی تحریک سے گھبرائے ہوئے تھے اور پورے نوٹس تیار کر کے ایوان میں آئے تھے ۔حکمراں جماعت نے اس بات کا پورا خیال رکھا تھا کہ وزیر اعظم کے خطاب کا پوسٹ مارٹم نہ ہو اس کی یہ حکمت عملی تھی کہ وہ پرائم ٹائم یعنی نو بجے کے بعد جواب دیں اور اتنی دیر تک بولیں کہ چینل والے ان کے خطاب کا پوسٹ مارٹم نہ کر سکیں ۔

Published: undefined

وزیر اعظم کے جواب کی ’مقبولیت‘ کا ویسے تو کئی باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں ٹی ڈی پی کے رہنما کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ ’’ وزیر اعظم نے بہت خوبصورتی اور ڈارامہ کر کے اپنی بات کو رکھا جو پوری طرح غلط بیانی پر مبنی تھی۔ ا ور ان کی تقریر کے دوران مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں بالی وڈ کی ایک بلاک بسٹر فلم دیکھ رہا ہوں‘‘۔

کسی بھی بات کو غلط طریقہ سے اپنے حق میں کیسے پیش کیا جا سکتا ہے اس کا اندازہ مودی کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے راہل کے گلے لگنے پر دیا ۔ مودی نے راہل گاندھی کے خود مودی سے گلے ملنے کے اچھے عمل کا جس انداز سے مذاق بنایا اس سے انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو مجروح کیا کیونکہ راہل گاندھی وزیر اعظم سے گلے ملنے گئے تھے اور گلے ملنے کے لئے مودی سے کہا تھا لیکن مودی نے اس کو توڑ مروڑ کے اس طرح پیش کیا کہ جیسے راہل ان کو سیٹ سےاٹھانے کے لئے آئے ہیں۔ مودی نے کہا کہ ان کو اس سیٹ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا صرف ملک کی ڈیڑھ کروڑ عوام ہی ہٹا سکتی ہے ۔ جنہوں نے ٹی وی پر پوری بحث دیکھی ہے وہ اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ راہل کیا کرنے گئے تھے اور مودی اس کو کس طرح پیش کر رہے ہیں ۔

وزیر اعظم نے اپنے اس انتخابی خطاب میں اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو نیا رنگ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ حزب اختلاف کی تحریک دراصل اپنے اتحاد کے امتحان کے لئے ہے نہ کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لئے ۔

اپنی حصولیابیاں گناتے ہوئے وزیر اعظم نے کسی بھی ایسے منصوبہ کا ذکر نہیں کیا جس کے بارے میں ملک کے عوام نے پہلے نہیں سنا ہو۔ جیسے پندرہ ہزار گاؤں میں بجلی پہنچانا ، بینک کھاتے کھولنا ،ایل پی جی یا جی ایس ٹی وغیرہ ۔لیکن خاص بات یہ تھی کہ وزیر اعظم کے جواب کے دوران بی جے پی ارکان میں جوش نظر نہیں آیا اور انکے چہروں پر فکر کے بادل مستقل چھائے نظر آئے ۔وزیر اعظم نے اپنے جواب میں جب حکومت کے ذریعہ کئے گئے کاموں کو گنوایا تو بھی بی جے پی کے ارکان میں کوئی جوش نظر نہیں آیا اور بہت کم ارکان میزیں تھپ تھپاتے نظر آئے ۔

اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسی مثال پیش کی جس کا ان کی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کانگریس کے زمانہ میں دو کمپنیاں موبائل بناتی تھیں اب 120 کمپنیاں موبائل بناتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا خطاب وزیر اعظم کے خطاب سے کہیں زیاہ اچھا تھا۔

وزیراعظم نے اپنے جواب میں ایک ایسا جواب دیا جس پر اگر کوئی نہ چونکے تو حیرت ہوگی ۔ وزیر اعظم نے کہا ہندوستان نے پوری دنیا کی معیشت کو استحکام بخشا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں ہندوستان کی اپنی معیشت کمزور ہوئی ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے ارکان کو کئی جملوں سے بہت ہنسانے کی کوشش کی لیکن ان کے کسی بھی بیان میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کے ساتھ کچھ ثبوت ہوں اس لئے بی جے پی ارکان کے چہروں پر سے فکر کے بادل نہیں ہٹ پائے ۔وزیر اعظم نے جب کہا کہ حزب اختلاف کا تو کسی بھی چیز پر اعتماد نہیں ہے چاہے وہ ادارہ ہوں یا اعداد و شمار تو اس پر بھی بی جے پی ارکان میں کوئی جوش پیدا نہیں ہوا ۔

ڈوکلام کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کانگریس پر الزام لگایا کہ جب ڈوکلام پر تناؤ تھا تو اس وقت کانگریس کے رہنما چین کے سفیر سے ملاقات کر رہے تھے مگر اس بات کا بھی سب کو علم ہے کہ خود بی جے پی کے کئی وزراء اس وقت چین کے دورہ پر تھے اور ان سے بات کر رہے تھے ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب سے ایک مرتبہ پھر گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔

وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر رافیل سودہ پر حکومت کا دفاع کیا ۔ سرجیکل اسٹرائک کا اپنے انداز میں دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم نے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی لیکن ان کو یہ یا د نہیں رہا کہ انتخابات سے قبل جو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اپنےایک فوجی کی جان کے بدلے پاکستان کے دس فوجیوں کے سر لائیں گے وہ آج تک پورا ہیں ہوا اور حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران مستقل ہمارے فوجیوں کے شہید ہونے کی تعداد ا میں اضافہ ہو راہ ہے ۔

کانگریس پر حکومتوں کو کمزور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے وزیر اعظم نے نوٹ کے بدلے ووٹ کا ذکر کیا لیکن یہ معاملہ اس وقت کا ہے جب حزب اختلاف منموہن سنگھ کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی تھی۔

وزیر اعظم نے کانگریس پر یہ الزام لگایا کہ اس نے ان پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ دھوکہ کیا جنہوں نے کانگریس کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ انہوں نے اڈوانی جیسے اپنے سینئر رہنماؤں کے ساتھ کیا کیا ۔ اس موقع پر انہو نے راہل گاندھی کی آنکھ مارنے کی بات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مذاق بنایا تو ایک مرتبہ پھر انہوں نے اپنے عہدہ کے وقار کو مجروح کیا ۔

آئین کی شق 356 کا غلط استعمال کرنے کے معاملہ پر کانگریس کی تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ ان کی پارٹی نے میگھالیہ اور گوا میں کیا کیا ۔

حکومت کے جی ایس ٹی کے فیصلہ کو ایک مرتبہ پھر وزیر اعظنم نے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ بینک کے این پی اے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم یہ بتا نا بھول گئے کہ ان کی حکومت کے دوران نیرو مودی اور میہول چوکسی نے پی این بی گھوٹالہ کیسے کیا اور ان کے چوکیدار رہتے ہوئے وہ ملک سے فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئے ۔

وزیر اعظم کے خطاب کے دوران ہنگامہ رہا ور اس ہنگامہ کو بڑھانے میں انوراگ ٹھاکر اور رمیش بدھوڑی پیش پیش نظر آئے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعہ جہاں حز ب اختلاف اپنی بات رکھنے میں کامیاب رہی وہیں وزیر اعظم نے ذاتی حملہ کر کے اور غلط بیانی سے کام لے کر حکمراں جماعت کو نقصان ہی پہنچایا ہے

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined