پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیان بدھ کے روز دیا تھا، جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ جو کوئی بھی کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا، وہ کشمیریوں اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام کشمیریوں سے بہت بڑی دشمنی کے مترادف ہو گا اور بھارت اسے بہانہ بنا کر کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم کرے گا۔
Published: undefined
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ انیس سو اٹھاسی کے بعد سے یہ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا وہ پہلا بیان ہے، جس میں واضح طور پر کشمیر میں جہاد کی کھل کر اور اعلانیہ مخالفت کی گئی ہے۔ اسلام آباد پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ 1988ء سے لے کر چند برس پہلے تک کشمیر میں جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر پاکستان میں کئی حلقے حیران ہیں تو کئی اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ پاکستانی قبضہ والے کشمیر میں اس مجموعی طور پر متنازعہ علاقے کی خود مختاری کے لیے سرگرم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم تو ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ جہادیوں کی در اندازی سے کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔ بھارت اس کو استعمال کر کے ہماری جدوجہد آزادی کو بدنام کرتا ہے۔ ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاستی پالیسی بھی ہونا چاہیے، صرف وزیر اعظم عمران خان کا ایک بیان نہیں۔‘‘
Published: undefined
توقیر گیلانی کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ہزاروں افراد نے راولا کوٹ اور پاکستانی قبضہ والے کشمیر کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر جہاد کا نعرہ لگایا، ''میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ حکومت کے علم میں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی جہاد کی باتیں کی ہیں۔ ممکن ہے کہ انہیں کسی ادارے کی حمایت حاصل نہ ہو اور انہوں نے یہ باتیں اپنی ذاتی حیثیت میں کی ہوں۔ لیکن یہ بات باعث تشویش تو ہے۔ اس سے تو ہماری جدوجہد بدنام ہو گی اور بھارت اس جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر کشمیریوں پر مزید ظلم کرے گا۔ اس طرح عالمی برادری کے سامنے ہمارا مقدمہ کمزور پڑ جائے گا۔‘‘
Published: undefined
پاکستان پر اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بھی سخت دباؤ ہے کہ وہ اپنے ہاں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ بصورت دیگر پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ معروف کشمیری دانشور پروفیسر خلیق کے خیال میں بنیادی طور پر یہ دباؤ ہی وہ وجہ ہے، جس نے عمران خان کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت اگر کوئی پاکستانی کشمیر میں جا کر جہاد کرتا ہے، تو بھارت اسے پکڑ کر دینا کو دکھا دے گا کہ پاکستان ہی یہ دہشت گردی کر رہا ہے، جس سے پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے اور اس کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان اس وقت یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ وہ کسی بھی طرح کی جہادی سرگرمی کی سر پرستی کر رہا ہے۔ کیونکہ یوں اسلام آباد پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ بہرحال، یہ بیان مثبت ہے اور ہمیں اس کو ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
پاکستان میں کچھ حلقے پہلے ہی عمران خان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کا مبینہ طور پر سودا کر لیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر مملکت آیت اللہ درانی کے خیال میں کشمیر کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیا گیا ہے۔ اسی لیے جہاد کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران کشمیر کا معاملہ طےکر لیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ خود مختار کشمیر کی بات کی گئی ہے۔ اس لیے اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ صرف عمران خان کا اپنا بیان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ مقتدر قوتوں کے بغیر کچھ نہیں کہتے۔ یہ ریاستی اداروں اور عمران خان کا مشترکہ بیان ہے، جو موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے بہتر ہے۔‘‘
Published: undefined
آیت اللہ درانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس جہادی مسئلے سے باہر آنا چاہیے، ''ہمیں پہلے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر اداروں میں بات چیت کے ذریعے اٹھانا چاہیے اور مسئلہ حل نہ ہو تو پھر آخری حد کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
دوسری طرف اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں امن کی بات کرنے والے لوگ کم ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''اگر پاکستان سے جہادی تنظیمیں جہاد کا نعرہ نہیں لگاتی تو اس سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔ لیکن جہادیوں کی کسی دخل اندازی کی صورت میں بھارت کی طرف سے بھی بھر پور جواب آ سکتا ہے، جس سے پورے خطے میں آگ لگ سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں جذباتی انداز میں سوچنے کے بجائے مسئلے کا پر امن حل نکالنا چاہیے۔ ایسی صورت میں یہ بیان مثبت ہے کیونکہ جہادی تنظیموں کی وجہ سے ہم نے بھی نقصان اٹھایا ہے اور اس خطے نے بھی۔ حکومت نہ صرف ایسی کسی در اندازی کو ناممکن بنائے بلکہ ایسی تنظیموں پر بھی سخت نظر رکھے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز