کیرانہ میں 10 دسمبر 2008 کا گواہ ہوں ، اس دن کیرانہ میں سکوت طار ی تھا وہاں جتنی خاموشی تھی اتنی خاموشی وہاں کبھی نہیں رہی تھی۔ شہر کے تقریباً ہر گھر میں ماتم تھا اور گھر کے چولہے میں آگ کی آنچ تک نہیں تھی۔ پچاس ہزار کی آبادی والے شہر میں اس دن لاکھوں لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ کسانوں کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر پہچانے جانے والے چودھری مہندر سنگھ ٹکیت اپنے سر کو پکڑے مایوسی سے بیٹھے تھے جبکہ کیرانہ کے قدآور رہنما حکم سنگھ کوبھی میں نے اس وقت منور حسن کے لئے زارو قطار رو تے ہوئے دیکھا تھا۔
اس وقت کی وزیر اعلیٰ مایاوتی اپنے اصولوں کے برخلاف منور حسن کے جنازہ میں شریک ہونے آئی تھیں۔ تین کلومیٹر دور سے رسی باندھ کر مایاوتی کے لئے راستہ تیار کیا گیا تھا۔ تمام کیرانہ اس وقت بند تھا اور کہیں بھی ایک دکان کھلی ہوئی نہیں تھی۔ کیرانہ کی خاموشی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس کی سرزمین نے آج اپنے لاڈلے کو کھو دیا ہے۔ آدھی رات کے بعد بی ایس پی حکومت کے وزیر توانائی رام ویر اپادھیائے کی بیٹی کی شادی میں شرکت کر کے لوٹ رہے رکن پارلیمنٹ منور حسن ایک سڑک حادثہ میں لقمہ اجل ہو چکے تھے۔
انتقال سے کچھ وقت قبل ہی ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا تھا کیوں کہ وہ ہندوستان کے اکلوتے ایسے رہنما تھے جنہوں نے ہندوستان کے چاروں ایوانوں میں یعنی راجیہ سبھا، لوک سبھا، اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں نمائندگی کا شرف حاصل کیا تھا۔ مشرقی یو پی میں منور حسن کی مقبولیت منفرد تھی۔ کیرانہ کے شاعر ریاست علی، منور حسن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ایم پی صاحب کو 10 ہزار سے زائد لوگوں کے نام زبانی یاد تھے۔‘‘
آج منور حسن کے فرزند ناحید حسن ان کی وراثت کو سنبھال رہے ہیں ۔انتقال کے وقت وہ 44 سال کے تھے۔ کیرانہ کے مولانا نسیم کہتے ہیں ’’ ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ آپ کسی رکشہ والے سے کہیں کہ ایم پی صاحب کے گھر جانا ہے تو وہ منور حسن کے گھر پہنچا دیتا ہے ۔ شہرمیں اور بھی کئی ایم پی ہیں لیکن منور حسن آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔‘‘ کیرانہ کے مشہور آئس کریم فروش محمد زاہد کے مطابق ’’ منور حسن جیسا رہنما یہاں کبھی پیدا نہیں ہو سکتا ، ان میں لوگوں کو اپنا بنا لینے کا فن تھا۔ ‘‘ٹھیلہ لگا کر کباب فروخت کرنے والے محمود کا کہنا ہے ’’ ایم پی صاحب میرے دوست تھے اور گاڑی روک کر اکثر یہاں کباب کھایا کرتے تھے ۔ ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہر کسی کو اپنا بنا لیتے تھے۔ ‘‘
محمد زاہد کے مطابق ’’ زمین سے جڑا رہنما تھے ، لوگ انہیں غریبوں کا مسیحا کہتے تھے، ۔‘‘ وہ اس طرح کے رہنما تھے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے راشد علی نے کہا’’ 2007 میں منور حسن کو مظفر نگر کے الماس پور میں ہم نے ایک ٹریکٹر ایجنسی کے افتتاح میں مدعو کیا تھا، اس وقت وہ رکن پارلیمنٹ تھے ۔ تقریباً 100 گاڑیوں کا بڑا قافلہ وہاں پہنچا۔ ہم سمجھ رہے تھے منور حسن کسی بڑی گاڑی سے اتریں گے لیکن وہ اترے ماروتی 800 گاڑی سے !‘‘
Published: 13 Dec 2017, 10:37 AM IST
مظفر نگرکے قصبہ میرانپور کے چیر مین ظہیر قریشی کہتے ہیں ’’ منور کسی کو نہیں کہتے تھے کہ میرے ساتھ چلو ، لوگ خود بخود ان کے ساتھ چل دیتے تھے۔‘‘ جانسٹھ کے عبد اللہ کے مطابق ’’ میں ٹھیلی پر کیلے بیچا کرتا تھا ایک دن منور سے کہیں ملاقات ہوئی تو انہوں نے نام پوچھ لیا۔پھر ایک دن انہوں نے بھیڑ کے بیچ نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ بھائی کیسے ہو۔ ان کے اس حسن اخلاق سے لوگوں میں دیوانگی کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ ‘‘
کیرانہ میں منور حسن اکثر لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے تھے اور گھر میں موجود خاتون سے کہتے ’’ لا لالّی کھانا دے، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ محمد نسیم کہتے ہیں ’’ دراصل لوگوں کے گھروں میں جاکر وہ ان کے حالات پتہ کرنے کی کوشش کرتے اور ان سے گھل مل جایا کرتے تھے ۔‘‘
منور حسن کے والد اختر حسن بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو 2 لاکھ ووٹوں سے ہراکر ایم پی منتخب ہوئے تھے ، اب ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ ان کا خاندان قدیمی زمیندار ہے ۔ منور حسن کے دادا چودھری بندو موجودہ رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کے رشہ میں بھائی لگتے تھے۔ واضح رہے کہ ہندو گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے چودھری بندو خاں تبدیلی مذہب کرکے اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔ 1991 میں منور حسن نے اپنے پہلے اسمبلی چناؤ میں اپنے رشتہ کے ’دادا ‘ حکم سنگھ کو بری طرح ہرا دیا تھا۔ 1996 میں وہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور 1998 میں انہیں ملائم سنگھ نے راجیہ سبھا میں بھیج دیا ۔
سماجوادی پارٹی کے رکن راشد صدیقی کہتے ہیں۔ ’’ منور بھائی کا جلوہ ایسا تھا کہ نیتا جی (ملائم سنگھ یادو) شیوپال کی بات ٹال سکتے تھے لیکن ان کی نہیں۔‘‘ منور حسن کی ایک فون کال پر کام نہ کرنے والے افسران کا ’بوریا بستر ‘بندھ جایا کرتا تھا ۔
شاملی کے نفیس رانا کے مطابق ’’انہوں نے غریبوں کی بے شمار دعائیں لیں اور سود خوروں میں تو ان کے نام سے ہی خلبلی مچ جاتی تھی۔ جانے کتنے غریبوں کے رہن رکھے گھر انہوں نے سود خوروں سے واپس دلوائے۔ان کے انتقال پر غریبوں میں اس لئے بھی ماتم تھا۔ ‘‘
Published: 13 Dec 2017, 10:37 AM IST
منور حسن 2003 میں ایم ایل سی بنے تھے اس کے بعد ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہو گیا۔ منور حسن کا جس وقت انتقال ہوا اس وقت ان کا بیٹا آسٹریلیا میں زیر تعلیم تھا۔ ان کے نزدیکی لوگ بتاتے ہیں کہ منور نہیں چاہتے تھے کہ ناحید سیاست میں آئے کیوں کہ وہ سیاست کا ہر رنگ دیکھ چکے تھے۔
منور حسن کے انتقال کے فوری بعد مایاوتی نے ان کی بیوہ تبسم حسن کو ان کی جگہ لوک سبھا کا امیدوار قرار دے دیا اور 2009 کے عام انتخابات میں تبسم حسن نے حکم سنگھ کو ہرا دیا۔ حال ہی میں ان کی بیٹی اقراء حسن ضلع پنچایت چناؤ لڑ چکی ہیں اور یکم دسمبر کو آئے بلدیہ انتخابات میں ان کے بھائی انور حسن کیرانہ کے چیر مین منتخب ہوئے ہیں۔
مظفر نگر میں منور حسن کے بنگلے پر ایک وقت سب سے زیادہ فریادیوں کی بھیڑ جمع ہوتی تھی۔ اب کسی رہنما کے پاس اتنی تعداد میں فریادی نہیں جاتے۔ ناحید حسن اب کیرانہ کے رکن اسمبلی ہیں ۔ دوسرا منور حسن ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا ہے۔ محمد عمر ایڈوکیٹ کے مطابق ’’منور حسن لگزری لیڈر نہیں تھے ان کا دیسی انداز ہی ان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔کئی رہنما منور حسن کی نقل کرتے ہیں لیکن اس طرح کا بردباری ابھی ان کے بیٹے کے اندر بھی نہیں آ سکی ہے۔ ‘‘
عوام منور حسن کے دیوانے تھے اور ان میں لاکھوں افراد کو ایک آواز پر جمع کرنے کی صلاحیت تھی۔ منور حسن کی ایک فون کال پر ’’سنو !منور بول رہا ہوں‘‘ افسران ہل جایا کرتے تھے۔
Published: 13 Dec 2017, 10:37 AM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Dec 2017, 10:37 AM IST