خبریں

’پاناما پیپرز‘ فرینکفرٹ میں ڈوئچے بینک پر چھاپے

جرمن دفتر استغاثہ کی جانب سے ڈوئچے بینک کے فرینکفرٹ کے دفتر پر چھاپوں کا سلسلہ کل بھی جاری رہااور ایک سو ستر اہلکاروں نے ڈوئچے بینک کی عمارت کی تلاشی لی۔

’پاناما پیپرز‘ فرینکفرٹ میں ڈوئچے بینک پر چھاپے
’پاناما پیپرز‘ فرینکفرٹ میں ڈوئچے بینک پر چھاپے 

جرمن دفتر استغاثہ کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ گزشتہ روز چھاپے کے دوران مکمل تلاشی نہیں لی جا سکی تھی اس وجہ سے بقیہ کارروائی آج مکمل کر لی جائے گی۔ ڈوئچے بینک کے ترجمان کے بقول اس سلسلے میں حکام سے مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس کارروائی کا تعلق ’پاناما پیپرز‘ سے ہے۔

Published: undefined

جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق ڈوئچے بینک پر شک ہے کہ اس نے تقریباً نو سو صارفین کو ایسے ممالک میں قائم ان کی آف شور کمپنیوں میں رقم منتقل کرنے میں مدد دی تھی، جنہیں ٹیکس چوروں کی جنت کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قریب311 ملین یورو کے برابر کی رقم ان کھاتوں میں بھیجی گئی۔ ذر ائع کے مطابق منی لانڈرنگ کے حوالے سے اس تحقیقاتی عمل کا دائرہ اس بینک کے کئی ملازمین کے گرد گھوم رہا ہے۔

Published: undefined

مالیاتی راز داری کے امور کے ماہر مارکس مائنزر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس بات پر بہت حیرت ہے کہ پاناما پیپرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے تناظر میں جرمن حکام نے اقدامات کرنے میں اتنی تاخیر کر دی ہے۔ ان کے بقول، ’’ گزشتہ دو برسوں سے وہ ان دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ٹیکس چوری اور مالیاتی جرائم کے معاملات میں بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔‘

Published: undefined

پاناما پیپرز کے نام سے 2015ء میں تقریباً ساڑھے گیارہ ملین خفیہ دستاویزات منظرعام پر آئیں تھیں۔ ان میں ٹیکس بچانے کے لیے سرمایہ سمندر پار منتقل کرنے والی متعدد اہم معروف سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام درج ہیں۔ اس فہرست میں کم از کم اٹھائیس جرمن شخصیات اور کمپنیوں کے نام بھی ہیں، جس میں جرمنی کا ڈوئچے بینک بھی شامل ہے۔

Published: undefined

ستمبر میں جرمنی میں مالیاتی معاملات کے نگران ادارے ’BaFin‘ نے ڈوئچے بینک کو منی لانڈرنگ روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔ ڈوئچے بینک تسلیم کر چکا ہے کہ مالیاتی ضوابط کے تناظر میں رقم کی غیر قانونی منتقلی کو روکنے کا اس کا نظام موثر نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined