خبریں

مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر پاکستانی فوج میں ’تکلیف اور اضطراب‘

پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان میں ملک کے سابق فوجی صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر پاکستانی فوج میں ’تکلیف اور اضطراب‘
مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر پاکستانی فوج میں ’تکلیف اور اضطراب‘ 

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری اور آئین شکنی کے الزامات کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے پر آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں شدید تنقید کی گئی ہے۔

Published: undefined

ملکی فوج کے ترجمان ادارے کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا، ''جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے بارے میں خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواج پاکستان میں تکلیف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ ایک سابق آرمی چیف، چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور پاکستان کے سابق صدر، جنہوں نے 40 برس سے زیادہ عرصے تک ملک کی خدمت کی، ملکی دفاع کے لیے جنگیں لڑیں، یقینی طور پر غدار تو نہیں ہو سکتا۔‘‘

Published: undefined

پاکستانی فوج کے ترجمان اس ادارے نے سابق آرمی چیف مشرف کے خلاف سنائے گئے فیصلے پر مزید تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے میں ضروری قانونی عمل کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بیان میں کہا گیا، ''بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ خصوصی عدالت نے آئین اور ذاتی دفاع کے قانونی حق سمیت ضروری قانونی عمل کا خیال نہیں رکھا ۔۔۔ اور مقدمہ جلد بازی میں نمٹایا گیا۔‘‘

Published: undefined

مشرف کے خلاف فیصلے کا خیر مقدم بھی، تنقید بھی

Published: undefined

پاکستان میں پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم بھی کیا جا رہا ہے اور اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان میں ایک خصوصی عدالت نے آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے میں سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

Published: undefined

کئی سیاسی مبصرین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ سزائے موت کا فیصلہ تو سنا دیا گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرانا بہت مشکل ہوگا۔ تجزیہ کاروں نے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس فیصلے پر عمل درآمد کی کوشش کی، تو ملک ایک بڑے تصادم کی طرف بھی جا سکتا ہے۔

Published: undefined

فیصلے کی اہمیت 'علامتی‘

Published: undefined

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی کسی عدالت نے کسی سابق آمر کو اس طرح کی سزا سنائی ہے، اور وہ بھی سزائے موت۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ یہ سزا صرف علامتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پرویز مشرف دبئی میں بیٹھے ہیں، وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ حکومت بھی انہیں واپس لانے کی شاید ہی کوئی کوشش کرے۔ امکان یہی ہے کہ حکومت اس معاملے میں غیرجانبدار رہے گی۔‘‘

Published: undefined

چند تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ ملکی عدلیہ ریاست کا ایک خود مختار بازو بنتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی عدالتوں پر یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر رہتی ہیں۔

Published: undefined

تجزیہ نگار ایوب ملک کے بقول اس فیصلے کے پاکستانی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے، جن سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔

Published: undefined

حکومتی رد عمل

Published: undefined

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ''ایسے فیصلے جن سے فاصلے بڑھیں، تقسیم بڑھے، قوم اور ادارے تقسیم ہوں، ان کا فائدہ؟‘‘

Published: undefined

اس فیصلے کے فوری بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی مشیر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت فیصلے کے قانونی اور سیاسی پہلوؤں اور ملکی سالمیت سے متعلق جہتوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اپنا رد عمل ظاہر کرے گی۔

Published: undefined

صوبے خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جس نے بھی آئین کی پامالی کی، قانون توڑا، ملک کو نقصان پہنچایا، اسے ہر حال میں سزا ملنا چاہیے۔ ہم اس عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ قانون کے سامنے سب برابر ہوتے ہیں، چاہے کوئی جج ہو، جنرل ہو یا پھر کوئی سیاست دان۔‘‘

Published: undefined

پاکستان مسلم لیگ ن کیا کہتی ہے؟

Published: undefined

پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما مشاہد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

Published: undefined

مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا، ''نواز شریف نے مشرف کو سزا دلوانے کے لیے مقدمہ شروع کیا تھا اور انہوں نے اپنی حکومت کی قربانی تو دے دی تھی لیکن سودے بازی نہیں کی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت مشرف کو سزا سے بچانا چاہتی تھی، لیکن اس کی ان کوششوں کے باوجود فیصلہ اس کے خلاف آیا۔ فروغ نسیم اور انور منصور خان پرویز مشرف کے وکیل رہ چکے ہیں اور وہ بہرصورت مشرف کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت نے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا، تو ہم اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔‘‘

Published: undefined

اسی سیاسی جماعت کے ایک اور رہنما احسن اقبال نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اگر پچاس برس پہلے عدالتیں ایسا ہی کوئی فیصلہ سنا دیتیں، تو ملک پر مارشل لاء کی کوئی نحوست کبھی نہ پڑتی۔‘‘

Published: undefined

اسٹیبلشمنٹ کا رد عمل کیا ہو گا؟

Published: undefined

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب بھی پرویز مشرف کو بچانا چاہتی ہے۔ تاہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان عثمان کاکڑ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عثمان کاکڑ نے کہا، ''پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بہت اچھے طریقے سے انصاف ہوا ہے ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہے گی۔ اسے غیر جانبدار رہنا بھی چاہیے اور کسی ایسے شخص کو بچانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے، جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہوں اور جس نے پاکستانی آئین کو پامال کیا ہو۔‘‘

Published: undefined

اس فیصلے کے بعد پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں ایک مرتبہ پھر شدت پیدا ہوگئی ہے۔ ملکی سوشل میڈیا صارفین بھی خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس فیصلے سے متعلق متعدد ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined