وزیر اعظم بورس جانسن کی خواہش کے مطابق لندن میں برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا دارالعوام کے جبری طور پر معطل کیے جانے کے بارے میں ایک سکاٹش اپیل کورٹ نے بدھ گیارہ ستمبر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ بریگزٹ سے پہلے حکومت نے ملکی پارلیمان کو جس 'جبری رخصت‘ پر بھیج دیا ہے، وہ اس لیے غیر آئینی ہے کہ اس کا مقصد بظاہر 'پارلیمان کے کام کی راہ میں رکاوٹ‘ ڈالنا ہے۔
Published: undefined
یہ عدالتی موقف بورس جانسن کی بریگزٹ سے متعلق سیاست کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا ہے۔ حالانکہ شروع میں اس بارے میں ایک آئینی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا، تاہم اب برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس مقدمے کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
Published: undefined
ساتھ ہی سکاٹش اپیل کورٹ نے وزیر اعظم بورس جانسن کے ایماء پر ہاؤس آف کامنز کی معطلی کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے 'غیر قانونی‘ بھی قرار دے دیا۔ پھر جیسے ہی ایڈنبرا میں اس عدالت نے یہ فیصلہ سنایا، اس کے فوری بعد لندن میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس کے خلاف اپیل بھی دائر کر دی گئی۔
Published: undefined
Published: undefined
یہ مقدمہ 75 ایسے اراکین پارلیمان نے دائر کیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جانسن کی خواہش کے مطابق ہاؤس آف کامنز کی کارروائی کو چند ہفتوں کے لیے معطل کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، وہ پارلیمان کے اختیارات کو محدود کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ لندن حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایسے ہی مقدمات شمالی آئرلینڈ اور انگلینڈ میں لندن کی عدالتوں میں بھی دائر کیے گئے ہیں۔
Published: undefined
سکاٹ لینڈ میں اس مقدمے کو پہلے ایک سیشنز کورٹ نے سماعت کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ اسی طرح لندن میں بھی ہائی کورٹ نے ایسی ہی ایک درخواست کو سماعت کے لیے منظور نہیں کیا تھا۔ اب لیکن سکاٹش اپیل کورٹ کے فیصلے کے بعد اس بارے میں حتمی اور ملک گیر سطح پر مؤثر فیصلہ برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا۔
Published: undefined
اس مقدمے کی کارروائی میں شامل وکیل جو موہم کے مطابق سپریم کورٹ میں اس بارے میں ایک اپیل کی سماعت 17 ستمبر یعنی آئندہ ہفتے منگل کے دن شروع ہو جائے گی۔
Published: undefined
بورس جانسن کی خواہش کے مطابق دارالعوام کی معطلی کا فیصلہ نو اور دس ستمبر کی درمیانی رات مؤثر ہو گیا تھا اور اسی دن ایوان زیریں میں منتخب ارکان کی طرف سے پارلیمانی کارروائی کے دوران اس اقدام پر واضح ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے حزب اقتدار پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ حکومت نے پارلیمان کو زبردستی خاموش کرا دیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
سکاٹس اپیل کورٹ کا فیصلہ برطانوی وزیر اعظم کے لیے پے در پے ناکامیوں اور سیاسی جھٹکوں کے ان واقعات کا تسلسل ہے، جن کا انہیں حکومت سنبھالنے کے بعد سے اب تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل ان کی اکتیس اکتوبر کی بریگزٹ ڈیڈ لائن سے پہلے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کی دو پارلیمانی کوششیں بھی ناکام ہو گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ایوان زیریں کی طرف سے ایک قانون سازی اور پھر اس مسودہ قانون کی ملکہ الزبتھ کی طرف سے تائید کے بعد بورس جانسن کے لیے یہ بھی ناممکن ہو گیا تھا کہ 31 اکتوبر کو برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے۔
Published: undefined
جانسن کئی بار کہہ چکے تھے کہ یورپی یونین سے کوئی نئی ڈیل ہو یا نہ ہو، بریگزٹ پر ہر حال میں 31 اکتوبر کو عمل درآمد ہو جائے گا۔ لیکن اب ان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اکتوبر کے آخر میں 'نوڈیل بریگزٹ‘ کے اپنے ارادوں پر عمل کر سکیں۔
Published: undefined
کوئی نئی ڈیل طے نہ ہونے کی صورت میں جانسن کو یورپی یونین سے بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کرنا پڑے گی۔ لیکن جانسن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ یونین سے ایسی کسی 'توسیع کی درخواست تو مر کر بھی نہیں‘ کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز