خبریں

ناسا کا خلائی مشن، سورج پر ’کمند‘ ڈالنے نکل پڑا

ناسا کا خلائی مشن انسانی تاریخ میں پہلی بار سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر زمین سے سب سے قریب ستارے کی ماہیت اور اس کی سطح پر اٹھنے والے طوفانوں سے متعلق معلومات لینے کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

آج تک سورج کی جانب بھیجے گئے تمام سابقہ مشنز کے مقابلے میں یہ جہاز اس ستارے کے سب سے زیادہ قریب تک پہنچے گا۔ اس خلائی مشن کا کام یہ ہو گا کہ یہ سورج کے کرونا کہلانے والے بیرونی ایٹموسفیئر کے قریب پہنچے گا۔ اس کی ساخت اس طرح اور ایسے مادوں سے بنائی گئی ہے کہ سورج سے فقط 6 ملین کلومیٹر کی دوری پر موجود رہنے کے باوجود یہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھے گا۔

Published: undefined

ناسا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ’’بے شک سائنس دان درست ہی کہتے ہیں کہ یہ آج تک کا سب سے ٹھنڈا اور سب سے گرم مشن ہوگا اور اسے روانہ کرنے کے لیے سنڈے سے بہتر دن کیا ہوگا۔‘‘

Published: undefined

اس مشن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سورج سے پھوٹنے والی تاب کاری اور انتہا درجے کی حدت کو برداشت کرتے ہوئے اپنا کام کرے گا اور اپنے اندرونی نظام کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں دے گا اور اس ماحول میں سورج کے ’کرہ ہوائی‘ اور ’شمسی ہواؤں‘ کی تصاویر بنائے گا۔

Published: undefined

ناسا کے اس منصوبے کے مطابق اس خصوصی مشن میں نصب کیمرے زومنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے سورج کے قریب پہنچ کر اس ستارے کے ’کرہ ہوائی‘ کا جائزہ لیں گے۔ اسی حصے میں سولر وِنڈز یا شمسی ہوائیں پیدا ہوتی ہیں۔ پارکر سولر پروب نامی یہ روبوٹک خلائی جہاز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔

Published: undefined

ابتدا میں اسے 6 اگست کو فلوریڈا کے کیپ کانیورل اڈے سے روانہ کیا جانا تھا، تاہم تکنیکی مسائل کی بنا پر اس کی روانگی میں چند روز کی تاخیر ہو گئی۔ اس خلائی جہاز کا یہ سات سال پر محیط مشن سورج سے صرف 6.1 ملین کلومیٹر دور سے تصاویر لے گا۔ اس سے قبل سورج کی جانب روانہ کیے جانے والے خلائی جہازوں کے مقابلے میں یہ فاصلہ سات گنا کم ہے۔

Published: undefined

جانز ہاپکن اپلائیڈ فزکس لیبارٹری اور اس پروجیکٹ سے وابستہ سائنس دان نِکولا فاکس کے مطابق، ’’کوئی خلائی جہاز وہاں بھیجنا، جہاں اس سے پہلے کبھی کوئی جہاز نہیں پہنچ پایا، دلچسپ بات ہے۔ اگر وہ علاقہ انتہائی سفاک حالات کا مالک ہوا، تو یہ دلچسپی بیان سے باہر ہوتی ہے۔‘‘

Published: undefined

سورج کی جانب سن 1976 میں ایک مشن ہیلیوس ٹو روانہ کیا گیا تھا، جو سورج سے 43 ملین کلومیٹر دوری تک پہنچ گیا تھا۔ واضح رہے کہ سورج اور زمین کے درمیان فاصلہ ڈیڑھ سو ملین کلومیٹر کا ہے۔

Published: undefined

سورج کے ایٹموسفیئر یا کرہ ہوائی کا بیرونی حصہ ’کرونا‘ شمسی ہواؤں کا باعث بنتا ہے اور اس میں انتہائی چارج ذرات سورج کی جانب سے نظام شمسی کے بیرونی حصے کی جانب چلتے ہیں۔ اس سولر وِنڈ کا زمین کی میگنیٹک فیلڈ یا مقناطیسی میدان پر بے انتہا اثر ہوتا ہے اور کمیونیکشن کے نظام میں بعض اوقات خلل کا باعث بھی یہی شمسی ہوائیں ہوتی ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس نئے مشن کے ذریعے ماہرین زمین کے خلائی ماحول سے متعلق بہتر پیش گوئیاں کر سکیں گے۔ اس پروجیکٹ پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے اور یہ ناسا کے اسٹار پروگرام کا پہلا بڑا مشن ہے۔

امریکی ماہر فلکیات اوجین نیومین پارکر کے نام سے موسوم یہ خلائی جہاز انتہائی سفاک حالات اور تاب کاری کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ جس مقام سے یہ سورج کی تصاویر لے گا، وہاں درجہ حرارت 1370 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس خلائی جہاز میں موجود آلات زیادہ سے زیادہ 29 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی حرارت برداشت کر سکتے ہیں، اس لیے ان آلات کو انتہائی جدید ڈھال فراہم کی گئی ہے، تاکہ وہ اس انتہائی بلند درجہ حرارت میں متاثر نہ ہوں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined