خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ کے اسٹریٹیجک راستے کی بندش سے لے کر سائبر حملوں تک کئی انداز سے اپنا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس اس واقعے کا جواب دینے کے لیے کئی طرح کے راستے اور امکانات موجود ہیں۔
Published: undefined
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کے قتل پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس واقعے کا درست وقت اور جگہ پر بھرپور انتقام لیا جائے گا، تاہم 1979ء سے قائم اسلامی حکومت سخت امریکی کارروائی کے خطرات کے تناظر میں مصلحت سے بھی کام لے رہی ہے۔ بین الاقوامی کرائسز گروپ ICG کے پروجیکٹ ڈائریکٹر برائے عراق، شام اور لبنان ہائیکو ویمِن کے مطابق ''فی الحال ہم نہیں جانتے کہ ایرانی قيادت اس ردعمل کے لیے اشتعال انگیزی اور تنازعے میں اضافے کو بہترین سمجھتی ہے یا ناپ تول کر کوئی قدم اٹھاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
ایران سن 1980 تا 1988ء تک عراق کے ساتھ جاری رہنے والی جنگ کی بنا پر، خود سے بڑی عسکری طاقت سے لڑائی کی قیمت سے واقف ہے۔ تاہم عراق، شام، لبنان اور دیگر مقامات پر ایران کا اثرو رسوخ اسے خطے میں امریکی موجودگی کے تناظر میں کئی اعتبار سے ردعمل کے امکانات بھی مہیا کرتا ہے۔
Published: undefined
بروکنگ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سوزانے میلونی کا کہنا ہے کہ ماضی میں تہران حکومت بڑے دھچکے برداشت کر چکی ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے اور زبردست انداز سے جواب نہیں دیتی۔
Published: undefined
قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کے قتل پر ایران ممکنہ طور پر لبنان میں حزب اللہ سے لے کر یمن میں حوثی باغیوں پر اپنے اثرورسوخ کا فائدہ اٹھا سکتا ہے جب کہ اس کے لیے عراق ایک اہم میدان جنگ بن سکتا ہے۔ عراق میں ایران نواز جنگجو امریکی فوج کو ملک سے نکلانے کے لیے، عراقی حکومت کو غیر مستحکم کر کے نئے سیاسی عدم استحکام کا ماخذ بن سکتے ہیں۔
Published: undefined
واشنگٹن میں قائم مشرقِ وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ایلیکس واتانکا کے مطابق، ''میرے خیال میں اب عراق میں امریکی موجودگی کے خلاف دباؤ میں بے انتہا اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
Published: undefined
اس کے علاوہ مختلف مقامات پر ایرانی پراکسی عناصر بھی متحرک ہو سکتے ہیں، یعنی یمن میں امن عمل کی امید سبوتاژ ہو سکتی ہے، جب کہ لبنان میں شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ اسرائیل کے خلاف حملوں کا آغاز بھی کر سکتی ہے۔
Published: undefined
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے انسداد دہشت گردی اور خفیہ معلومات کاری کے پروگرام کے ڈائریکٹر میٹ لیوِٹ کے مطابق، ''اسرائیل بھی ہدف ہو سکتا ہے کیونکہ ایران اسرائیل کو امریکا ہی کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ایران کے لیے ایک موزوں ردعمل سائبر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ ایران نے مغربی سائبر ڈھانچے کے خلاف حملے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور اس کے لیے اس نے 'سائبر آرمی‘ بنا رکھی ہے۔
Published: undefined
فرانسیسی انفارمیشن سیکورٹی گروپ کلوسیف سے وابستہ ماہر لوئی گوئز کا کہنا ہے کہ ایران کے سائبر حملوں کا سب سے زیادہ خطرہ بڑے صنعتی اداروں، جن میں ڈیمز اور پاور اسٹیشنز شامل ہیں، کو ہے۔ ''زیادہ خطرہ یہ ہے کہ معاشرتی ڈھانچے پر ان کا کتنا اثر ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے بجلی منقطع ہو، گیس لیکس کے واقعات پیش آئیں، دھماکے ہوں، ٹرانسپورٹ کا نظام اور اسپتالوں کے افعال متاثر ہوں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined