مقامی پولیس افسر احمد باشان کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اس خوفناک دھماکے میں تقریباﹰ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘ اس ٹرک بم دھماکے کے بعد زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا گیا تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی کے مطابق شافی ہسپتال کی انتظامیہ نے آٹھ ہلاکتوں اور درجنوں زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ اسی طرح مدینہ ہسپتال کی انتظامیہ نے 73 ہلاکتوں اور 54 زخمیوں کا ذکر کیا ہے۔ موغادیشو کے دیگر ہسپتالوں میں بھی زخمیوں کے علاوہ کئی لاشیں لائی جا چکی ہیں۔ مقامی پولیس نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
Published: undefined
قبل ازیں موغادیشو کے مئیر عمر محمد نے کہا تھا کہ نوے افراد زخمی ہیں، جن میں متعدد طلبہ بھی شامل ہیں۔ ایک چیک پوائنٹ پر ہونے والے اس حملے کی ابھی تک کسی بھی گروہ یا عسکریت پسند تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن مقامی میڈیا میں ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کے پیچھے جہادی تنظیم الشباب کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ایک حکومتی ترجمان کے مطابق جس وقت یہ حملہ کیا گیا، اس وقت اس چیک پوائنٹ پر بہت سے لوگ جمع تھے۔ بہت سے طلبہ اسکولوں اور کالجوں میں جانے کے لیے اس چیک پوائنٹ کے قریب کھڑے تھے جبکہ دیگر افراد اپنے اپنے دفتروں یا خریداری کے لیے بازاروں میں جانے کی خاطر اس چیک پوائنٹ سے گزرنے کے انتظار میں تھے۔
Published: undefined
عینی شاہدین کے مطابق جس وقت یہ دھماکا ہوا، وہاں دو ایسی چھوٹی بسیں بھی موجود تھیں، جن میں اسکولوں کے بچے سوار تھے۔ بم دھماکے کی شدت سے وہ دونوں چھوٹی بسیں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ حکومتی ترجمان علی حسن کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پانچ پولیس افسران بھی شامل ہیں، جو وہاں ڈیوٹی پر موجود تھے۔
Published: undefined
مقامی پولیس نے اس حملے میں تین ترک شہریوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر دی ہے۔ بظاہر یہ تینوں ترک شہری انجینئر تھے، جو موغادیشو سے افگوئے جانے والی سڑک کی تعمیر میں تکنیکی مدد کے لیے وہاں موجود تھے۔ صومالیہ میں ترک سفارت خانے نے آخری خبریں آنے تک اس بم دھماکے میں دو ترک شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
Published: undefined
دریں اثناء ترکی نے اپنی ایک بیس رکنی طبی ٹیم صومالیہ روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہاں زخمیوں کی مدد کی جا سکے۔ روس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے متعدد رہنماؤں نے اس خونریز حملے کی مذمت کرتے ہوئے صومالیہ کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined