نیوز چینل اے بی پی سے وابستہ دو معروف صحافیوں نے حال ہی میں استعفے دے دیے جس کے بعد بھارت میں میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ چینل چھوڑنے والوں میں چیف ایڈیٹر میلنڈ کھانڈیکر اور پُنیہ پرسون واجپائی شامل ہیں جو مشہور ٹی شو ’ماسٹر اسٹروک‘ کے میزبان تھے۔
گزشتہ ماہ اس چینل نے ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کے رہائشی کی کہانی سنائی گئی تھی۔ اس شخص نے بتایا تھا کہ حکومتی اہلکاروں نے اسے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی دیہاتیوں کے لیے شروع کردہ ایک اسکیم سے مستفید ہوئے تھے۔ اس رپورٹ کے بعد حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس ٹی وی چینل سے شدید ناراض ہوئی تھی۔
اسی نیوز چینل نے نیوز اینکر ابھیسار شرما کو بھی اس لیے ’آف ایئر‘ کر دیا تھا کیوں کہ انہوں نے چینل انتظامیہ کی جانب سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید نہ کرنے کی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا اداروں کو جس دباؤ کا اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
Published: undefined
ایک خاتون صحافی سیوانتی نینں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’حکومت صحافیوں پر براہ راست دباؤ نہیں ڈالتی بلکہ وہ میڈیا مالکان پر دباؤ ڈالتی ہے جو عام طور پر دباؤ میں آجاتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سیلف سنسرشپ میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ اے بی پی نیوز میں جو کچھ ہوا، وہ سنسر شپ کی صرف ایک مثال ہے۔‘‘
ایک ماہر عمرانیات سنجے سریواستو نے اس رجحان کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بڑی میڈیا آرگنائزیشنز سیاست دانوں اور کاروباری اداروں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں، جو ان ٹی وی چینلز اور اخباروں کو مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
صحافیوں کے لیے موجودہ سیاسی ماحول میں، جس کا میڈیا منظر نامہ ’الٹرا نیشنل ازم‘ کی چھاپ کی لپیٹ میں ہے، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ صحافیوں پر بلواسطہ دباؤ ڈالے جانے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن اور سوشل میڈیا ٹرولز بھی صحافیوں کو منظم انداز میں حراساں کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے بھی اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا، ’’میڈیا اداروں پر کارپوریٹ اور سیاسی دباؤ شدید تر ہو چکا ہے اور ایسے میں صرف چند صحافی ہی ایسے ہیں جو غیرجانبداری کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined