گریٹر نوئیڈا میں مشہور ملٹی نینشنل کمپنی ’جنپیکٹ‘ کے اسسٹنٹ وائس پریسیڈینٹ سوروپ راج کی خودکشی کے معاملہ نے ایک مرتبہ پھر ’می ٹو‘ تحریک پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں ۔ سوروپ راج پر کمپنی کی دو خواتین نے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا اور ان الزامات کے تحت کمپنی نے سوروپ راج کو ملازمت سے ہٹا دیا تھا۔ اپنے شوہر کی موت سے غمزدہ سوروپ راج کی اہلیہ کریتی کا کہنا ہے کہ ’’لڑکیوں کو یہ حق ہے کہ وہ کسی پر بھی الزام لگا کر اس کی زندگی برباد کر دیں ۔ اسی لئے آج لوگ خواتین ملازم رکھنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں ‘‘۔
Published: undefined
واضح رہے کہ الزامات کے بعد کمپنی نے ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ذریعہ جانچ کے بعد سوروپ پر لگائے گئے الزامات کو صحیح پایا گیا تھا ۔ لیکن خودکشی سے پہلے سوروپ نے ایک سوسائڈ نوٹ لکھا تھا جو پولس کے ہاتھ لگا ہے۔ اس سوسائڈ نوٹ میں میں سوروپ نے خو د کو بے گناہ بتایا ہے ۔ پولس پورے معاملہ کی جانچ کر رہی ہے۔
سوروپ راج نے سوسائڈ نوٹ میں اپنی اہلیہ کو خطاب کرتے ہوئے تحریر کیا ہے ’’آج میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔ میرے اوپر کمپنی کی دو خواتین ملازم نے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے ۔ میرا یقین کرو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھے پتہ ہے کہ دنیا اسے صحیح سمجھے گی لیکن تم کو اور ہمارے خاندان کو مجھ پر یقین کرنا چاہئے کہ یہ سارے الزامات جھوٹے ہیں ‘‘۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’جنپیکٹ میں سبھی لوگ یہ حقیقت جانتے ہیں لیکن میرے اندر ان الزامات کو سہنے کی ہمت نہیں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مضبوط بنو اور اپنی زندگی پوری عزت سے جیو کیونکہ تمہارے شوہر نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے ۔ میں جا رہا ہوں ، اگر بے گناہ بھی ثابت ہوا تو بھی مجھے لوگ شک کی نگاہ سے ہی دیکھیں گے‘‘۔
Published: undefined
دوسری جانب سوروپ کی اہلیہ کریتی کا رو رو کر برا حال ہے ۔کریتی نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ ’’میں کام سے رات کو گھر لوٹی تو دروازہ نہیں کھل رہا تھا ۔ مشکل سے اندر گھسی تو دیکھا کہ اندر والے کمرے میں سوروپ پنکھے سے لٹکے ہوئے ہیں ‘‘۔کرتی نے مزید کہا کہ ’’ سوروپ راج کام کو لے کر بہت سنجیدہ شخص تھے اور وہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر ایسے الزام لگائے گا ۔ الزام لگانے والی کون لڑکیاں ہیں وہ نہیں جانتی نہ ہی کبھی سوروپ نے ایسا کوئی ذکر کیا ۔ کمپنی کو کم از کم سارے معاملہ کی صحیح طرح جانچ تو کرانی چاہئے تھی‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ خواتین کی جانب سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات کے معاملے بڑھتے جا رہے ہیں اور اس نے ایک انتہائی خراب شکل اختیار کر لی ہے ۔ ’می ٹو ‘ تحریک پر سماج میں بحث ہو رہی ہے اور ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ اس کا غلط استعمال ایسے ہی ہو رہا ہے جیسے جہیز مخالف قانون کا ہوا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز