لاء کمیشن نے سفارش کی ہے کہ کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں سٹے کو قانونی دائرے میں لایا جائے کیونکہ اس پر مکمل پابندی سے نقصان ہوا ہے ۔ کمیشن نے اس سفارش کی حمایت میں یہ بھی کہا ہے کہ اس کا استعمال ملک میں ایف ڈی آئی کو راغب کرنے کے لئےکیا جانا چاہئے ۔
کمیشن نے’’لیگل فریم ورک: گیمبلنگ اینڈ اسپورٹس بیٹنگ انکلوڈنگ کرکٹ ان انڈیا ‘‘ کے نام سے جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں سفارش کی ہے کہ سٹے بازی کو قانونی شکل دی جائے اور اس میں ایسے قانون بنائے جائیں جس سے قومی خزانہ میں اضافہ ہو ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سٹے بازی پر ایک قانون بنا سکتی ہے اور ریاستیں اسے اپنا سکتی ہیں یا متبادل شکل میں پارلیمنٹ آئین کی شق 249 یا 252 کے تحت اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قانون بنائے اور اگر شق 252 کے تحت بل منظور کیا جاتا ہے تو ریاستی حکومتیں اسے اپنے یہاں لاگو کرنے میں آزاد ہوں گی۔
کمیشن نے سٹے بازی یا جوئےمیں شامل ہونے والے شخص کا آدھار کارڈ یا پین کارڈ کو لنک کرنے کی اور اور بلیک منی کے استعمال کو روکنے کے لئے کیش لیس لین دین کرنے کی بھی سفارش کی ہے ۔
یہ رپورٹ چئیرمین جسٹس بی ایس چوہان نے تیار کی ہے ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بی سی سی آئی اور بہار کرکٹ ایسو سی ایشن کے درمیان چل رہے تنازعہ کی سنوائی کے دوران سٹے بازی کو قانونی شکل دینے کے امکانات پر رپورٹ تیار کرنے کو کہا تھا ۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مہابھارت سے بھی مثال پیش کی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر مہا بھارت کے دور میں جوئے کو لے کر قانون ہوتا تو یودھیشٹراپنے بھائیوں اور بیوی کو داؤ پر نہیں لگا پاتے اور پھر شائد مہابھارت بھی نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ حال میں صرف گھوڑوں کی ریس پر سٹہ لگانے کی قانونی اجازت ہے اور اس پر28 فیصد جی ایس ٹی لگتا ہے ۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ جس طرح گھوڑوں کی ریس کو ایک ہنر کے دائرے میں رکھ کر اجازت دی ہوئی ہے اسی طرح دیگر کھیلوں کو بھی ایسی اجازت دے دینی چاہئے ۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ سٹے بازی کے قانونی ہونے کے بعد اس کا غلط استعمال نہ ہو نے کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا ریگلیوشن کیا جائے اور اس کا لائسنس دیا جائے۔
واضح رہے سٹے بازی کو قانونی شکل دینےکی بات بہت وقت سے چل رہی ہے ۔ ہندوستان میں سٹے بازی کے بازار کو لے کر مختلف قسم کے اعداد و شمار پیش کئے جاتے رہے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق یہ بازار قریب 60بلئن ڈالر کا ہے جبکہ تازہ اعداد و شمار اس کو اور زیادہ بتاتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined