ایک 8 سالہ معصوم بچی جو دایاں اور بایاں ہاتھ بھی نہ پہچانتی ہواس کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے بعد ہندو-مسلم کی بات کرنا کیا صحیح ہے؟ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات اس بچی کے والد نے کہی جس کی عصمت دری کے واقعہ نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ معاملہ جموں و کشمیر ہی نہیں ملک بھر میں ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔
جموں و کشمیر کی سانسار پہاڑی پر رہنے والے آصفہ کے والد نے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں اپنے غصہ کا اظہار کیا۔ خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ سے وابستہ یہ خاندان اپنا سامان سمیٹ کر اپنے مویشیوں کے ساتھ 600 کلومیٹر دور پہاڑوں پر نکل چکا ہے جیسا کہ وہ ہر موسم گرما میں کرتے ہیں۔
روزنامے سے بات کرتے ہوئے بچی کے 35 سالہ والد نے روتے ہوئے کہا ’’انہیں بدلا لینا تھا تو وہ کسی اور سے لے لیتے، ایک معصوم بچی نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرا دایاں ہاتھ کون سا ہے اور بایاں ہاتھ کون سا۔ اس نے تو یہ بھی نہیں سمجھا تھا کہ ہندو کیا ہوتا ہے اور مسلمان کیا ہوتا ہے۔‘‘
’دی فرسٹ پوسٹ ‘ کی رپورٹ کے مطابق آصفہ کی بہن کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں جنگل میں جانے سے ڈر نہیں لگتا۔ لیکن اب راستوں پر جانے میں ڈر لگتا ہے۔ ہمیں انصاف کی امید ہے۔ قصورواروں کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم بہت پریشان ہیں، ہمیں کھانے کو کچھ نہیں مل رہا اور ہمیں دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں ۔
وہیں آصفہ کی ماں نے کہا کہ ’’میری بیٹی بہت خوبصورت تھی۔ ہمیں اس کی بہت یاد آتی ہے۔ میری بچی نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ ا س کی کیا غلطی تھی جو مار دیا گیا۔ پہلے ہمیں ایسا لگا کہ آصفہ کو کسی جانور نے اپنا شکار بنا لیا ہے ۔ مجرموں کو سخت سزا دی جانی چاہئے۔
تین بھائی بہنوں میں عصمت دری کی شکار ہونے والی بچی آصفہ سب سے چھوٹی تھی۔ دو بیٹے ہیں جو کلاس 6 اور کلاس 11 میں پڑھتے ہیں۔ کٹھوعہ میں رہنے کے دوران بچے پاس کے گاؤں میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔ حالانکہ آصفہ ان کی بہن کی بیٹی تھی جس کی ایک حادثے میں 2 دیگر بچوں کےساتھ موت ہو گئی تھی۔ والد نے روتے ہوئے کہا ’’بچی ہر وقت ماں کے ساتھ رہتی تھی اور اس کے ہر کام میں مدد کرتی تھی۔جب میں باہر جاتا تھا تو وہ میرے ساتھ باہر جانے کی ضد کرتی تھی۔ ‘‘
جنوری ماہ کے پہلے ہفتے میں سانبہ قصبہ میں اپنی ماں کے ساتھ جانا اس کے لئے آخری بار باہر جانا ثابت ہوا۔ وہ اپنے ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کرنے کے لئے کپڑے لینے گئی تھی۔ شادی سے 4 دن قبل یعنی 10 جنوری کو اس کو اغوا کر لیا گیا۔
اس کی ماں کا اس بات پر زور تھا کہ اس سال گرمیوں میں نجی اسکول میں اس کا داخلہ کرایا جائے۔ والد نے کہا ’’ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بچی کو پڑھا کر ڈاکٹر یا ٹیچر بنائیں گے۔ ہم نے اتنی بڑی سوچ نہیں رکھی تھی۔ ہم نے تو بس یہ سوچا تھا کہ لڑکی خوبصورت ہے، پڑھ لکھ لےگی تو کسی اچھے گھر چلی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
کیا ہوا تھا آصفہ کے ساتھ؟
جموں و کشمیر میں کٹھوعہ ضلع کے لسانا گاؤں سے بچی لاپتہ ہو گئی۔ سات دن کے بعد اس کی لاش جنگل سے برآمد کی گئی۔ حکومت نے اس معاملے کو 23 جنوری کو کرائم برانچ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد معاملہ میں ایک ایس پی او (اسپیشل پولس آفیسر) کو گرفتار کیا گیا ۔
اس معاملے میں اب تک 8 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں 2 خصوصی پولس افسران، ایک ہیڈ کانسٹیبل، ایک سب انسپکٹر، کٹھوعہ کا رہائشی ایک سابق ریوینیو افسر اور دو نابالغ لڑکے شامل ہیں۔
چارج شیٹ کے مطابق بچی کو جنوری میں ایک ہفتے تک کٹھوعہ ضلع میں واقع ایک گاؤں کے مندر میں یرغمال بنا کر رکھا گیا اور اس دوران 6 افراد نے اس کی عصمت دری کی۔
چارج شیٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچی کو نشیلی دوا دینے کے بعد بار بار اس کی عصمت دری کی گئی۔ ایک ملزم نے اپنے چچازاد بھائی کو خاص طور پر فون کر کے میرٹھ سے بلایا تاکہ وہ بھی بچی کا ریپ کر سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined