وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جوڑی کو بی جے پی والے کسی بھی ریاست میں انتخابی تشہیر کے لیے بہترین جوڑی تصور کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ دونوں’ہندوتوا‘ کے نمائندہ چہرہ ہیں۔ چونکہ بی جےپی ترقی کے نام پر انتخاب جیتنے سے قاصر ہے اس لیے ہر ریاست میں مودی-یوگی کی جوڑی بھگوا لہر پیدا کر کے انتخاب جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کرناٹک انتخابات میں ان کی یہ کوشش ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کا احساس ریاست کے بی جے پی امیدواروں کو بھی ہونے لگا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کرناٹک کی چنّاپٹنااسمبلی سیٹ سے پارٹی امیدوار سی پی یوگیشور نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ’’مودی جی کا جادو لوک سبھا انتخاب میں چلا تھا لیکن اس بار کے اسمبلی انتخاب مین ان کا جادو نہیں چلنے والا کیونکہ بی جے پی نے صحیح امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ ’’یہ اتر پردیش نہیں ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان ہے۔ ہم میچیور لوگ ہیں۔ سبھی چاروں جنوبی ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں۔ یہاں ایشوز الگ ہیں۔‘‘
Published: 30 Apr 2018, 8:59 PM IST
یوگیشور کے اس بیان کے بعد بی جے پی میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔چونکہ اسمبلی انتخابات میں اب محض 12 دن بچے ہیں اس لیے بی جے پی کے لیے مشکلیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ پہلے ہی ریاست میں کانگریس کی حالت بہتر نظر آ رہی ہے اور جنتا دل سیکولر نے بھی انتخابات سے پہلے یا بعد میں بی جے پی کے ساتھ کوئی اتحاد کرنے سے انکار کر دیا ہے، ایسی صورت میں اپنے ہی امیدوار کے متنازعہ بیان سے بی جے پی کا پریشان ہونا لازمی ہے۔ یوگیشور کے اس بیان سے نہ صرف ریاست میں پارٹی کی حالت مزید کمزور ہوگی بلکہ ان کا بیان نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہ پر بھی کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہے۔
Published: 30 Apr 2018, 8:59 PM IST
دراصل اپنی بات کو بے باک انداز میں میڈیا کے سامنے رکھنے والے یوگیشور 1999 سے لگاتار چنّاپٹنا سیٹ سے نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ اس سیٹ سے کانگریس اور سماجوادی پارٹی کا امیدوار رہتے ہوئے فتحیاب ہونے کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار کی شکل میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس سیٹ پر ان کی گرفت کافی مضبوط ہے اس لیے وہ بغیر کسی دباؤ میں بیان دے رہے ہیں۔ بی جے پی نے جب کرناٹک میں پہلی بار 2008 میں حکومت تشکیل دی تھی تو اس وقت یوگیشور وزیر جنگلات بھی رہ چکے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں یوگیشور کئی پارٹیوں کے ساتھ جڑ چکے ہیں اور ہمیشہ ہی اس چنّاپٹنا سیٹ سےکامیابی حاصل کی۔ 2013 میں تو انھوں نے جنتا دل سیکولر لیڈر کماراسوامی کی بیوی انیتا کماراسوامی کو بھی شکست دی تھی۔ اپنی فتح کے تئیں پرامید یوگیشور اس بار بی جے پی سے کسی اچھی کارکردگی کی امید نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی کی اس علاقے میں کوئی موجودگی نہیں ہے، کوئی کیڈر نہیں ہے۔ میں اسمبلی سیٹ میں اپنے اچھے کاموں کی بدولت جیتتا ہوں۔‘‘
یوگیشور کی اچھی شبیہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود علاقے کے لوگ انھیں پسند کرتے ہیں۔ مسلم طبقہ بھی ان کے کام سے خوش نظر آتا ہے لیکن اس بار وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یوگیشور کو ووٹ جائے یا نہیں، کیونکہ وہ بی جے پی سے امیدوار ہیں۔ 55 سالہ یوگیشور یقیناً بی جے پی کی خراب شبیہ کا اثر اپنے اوپر نہیں پڑنے دینا چاہتے ہیں اسی لیے انھوں نے یہ کہنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی کہ ’’جنوبی ہند میں تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک میں علاقائی پارٹیوں کا اثر زیادہ ہے۔ بی جے پی بھی مضبوط بننے کی کوشش کر رہی ہے لیکن بغیر زمینی لیڈر اور کارکن کے۔‘‘ ان کا اشارہ صاف ہے کہ صرف مودی اور یوگی اپنا چہرہ دکھا کر ہر ریاست میں انتخاب نہیں جیت سکتے بلکہ وہاں مقامی کیڈر بھی تیار کرنا ہوگا جو ریاست کے لیے کام کر سکیں۔
واضح رہے کہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات 12 مئی کو ہوں گے اور گنتی 15 مئی کو ہوگی۔ بی جے پی کی جیت کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی پوری ٹیم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن ابھی تک جو انتخابی سروے میڈیا چینل نے دکھائے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ جنتا دل سیکولر کو کئی سروے میں کنگ میکر کی شکل میں دکھایا گیا ہے جس کے سربراہ دیوگوڑا نے یہ بیان دے کر بی جے پی کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے کہ وہ انتخاب سے پہلے یا بعد بی جے پی سے کوئی گٹھ جوڑ نہیں کریں گے۔
Published: 30 Apr 2018, 8:59 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Apr 2018, 8:59 PM IST