ویسے تو طلبا یونین کا انتخاب ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز میں بڑے زور و شور کے ساتھ لڑا جاتا ہے لیکن دہلی واقع بایاں محاذ کی دبدبہ والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) طلبا یونین کا انتخاب دیگر یونیورسٹیوں میں استعمال ہونے والے ’پیسے اور پاور‘ کے انتخاب سے ہٹ کر نظریات اور دانشمندی کی سطح پر لڑا جاتا ہے۔ جے این یو میں نامزدگی کا عمل پورا ہو چکا ہے اور اہم لیفٹ پارٹیوں سمیت اے بی وی پی، این ایس یو آئی، باپسا (برسا، امبیڈکر، پھولے اسٹوڈنٹ ایسو سی ایشن) کے امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ گزشتہ رات جے این یو میں صدارتی ڈیبیٹ یعنی مذاکرہ منعقد کیا گیا جس میں سبھی اہم تنظیموں سمیت صدارتی عہدہ کے آزاد امیدواروں کے ذریعہ اپنا و اپنی تنظیم کا ایجنڈا پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی یونیورسٹی کے مقامی مسائل سے لے کر ملک اور بیرون ملک کے تئیں ان کا کیا نظریہ ہے، اس پر بھی سوال و جواب ہوئے اور اپنی رائے رکھی گئی۔
جے این یو میں صدارتی مذاکرہ کی خاص اہمیت ہے اور ایسا مانا جاتا ہے کہ جس امیدوار کیس تقریر جتنی زیادہ واضح، اثردار اور دَمدار ہوتی ہے اس کی فتح کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذاکرہ سے کچھ گھنٹے پہلے این ایس یو آئی کے ذریعہ کیمپس کے اندر مشعل جلوس بھی نکالا گیا۔
Published: undefined
جے این یو طلبا یونین انتخاب میں ایک بار پھر لیفٹ تنظیموں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے۔ گزشتہ سال جہاں آئیسا، ڈی ایس ایف اور ایس ایف آئی انتخابی اتحاد کا حصہ تھی، وہیں اس بار اے آئی ایس ایف بھی اتحاد میں شامل ہو گئی ہے جس سے کہ کبھی کنہیا کمار امیدوار بن کر جے این یو ایس یو کے صدر بھی رہے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ انتخابات میں سبھی چاروں عہدوں پر دوسرے مقام پر رہنے والی اے بی وی پی اور این ایس یو آئی و باپسا نے انتخابی میدان میں اپنے اپنے امیدوار آزادانہ طور پر اتارے ہیں۔ دوسری طرف صدارتی عہدہ پر آزاد امیدواروں کے ساتھ ساتھ جینت کمار کی شکل میں لالو یادو کی پارٹی آر جے ڈی و ندھی مشرا کی شکل میں اعلیٰ ذات مورچہ کی جے این یو طلبا یونین انتخابات میں انٹری ہوئی ہے۔ ندھی مشرا جے این یو طلبا یونین کے صدر عہدہ کے لیے کھڑی ہونے والی آنکھوں سے معذور پہلی امیدوار ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح کی کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے کئی میڈل اپنے نام کیے ہیں۔ اسی کے ساتھ نائب صدر، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری عہدہ پر بھی الگ الگ تنظیموں کے چار چار امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔
جے این یو طلبا یونین کے انتخابات کی اہمیت اسی بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ انتخابی تشہیر میں قومی پارٹیوں کے مشہور لیڈران نے بھی اپنی طاقت جھونک رکھی ہے۔ کچھ دن قبل این ایس یو آئی کی حمایت میں جہاں پی چدمبرم، ششی تھرور اور سلمان خورشید نے جے این یو جا کر طلبا سے بات چیت کی تھی جب کہ اے بی وی پی کی حمایت میں شمال مشرق کے تین وزرائے اعلیٰ کوئنا ہاسٹل میں منعقد ایک میٹنگ میں شامل ہوئے تھے۔
جے این یو طلبا یونین انتخاب میں سبھی پارٹیوں کے اپنے اپنے ایشوز ہیں۔ لیکن کچھ ایسے ایشو بھی ہیں جو سبھی پارٹیوں میں یکساں طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں، مثلاً لازمی حاضری کو ختم کرانا، داخلے میں 100 فیصد انٹرویو کو ختم کرنا، سیٹ میں تخفیف کی مخالفت، جی ایس سی اے ایس ایچ یعنی جنڈر سنسٹائزیشن کمیٹی اگینسٹ سیکسوئل ہراسمنٹ کو بحال کرانا، اسکالرشپ میں اضافہ، 24x7 ہیلتھ سنٹر اور ڈھابا کا انتظام، نئے ہاسٹل کی تعمیر اور پرانے ہاسٹل کی مرمت، جنس و اقلیت کی بنیاد پر تفریق کو ختم کر سماجی انصاف کا قیام کرنا وغیرہ۔
ایسے ماحول میں جب کہ ملک کے اندر ملک پرستی و ملک غداری اور ایس سی-ایس ٹی کی بحث جاری ہے، جے این یو طلبا یونین کے نظریات جاننا بھی ضروری ہے۔ جب ہم نے اے بی وی پی کے جے این یو صدر وجے کمار سے بات کی اور ’آئیسا اتحاد‘ کو چیلنج و ’ملک غداری میں جے این یو طلبا کی شراکت داری‘ پر سوال کیا تو ان کا واضح لفظوں میں کہنا تھا کہ ’’جے این یو کو ملک مخالفین کا گڑھ کہنا غلط ہے۔ یہ صرف چند ایک طلبا کی ذہنی پیداوار ہے۔ راہی بات لیفٹ پارٹیوں کے اتحاد کی تو وہ ہماری نظریاتی فتح ہے اور یہی سبب ہے کہ یہ سبھی ڈر کر سمٹ گئے ہیں اور ہمارے خلاف ایک ہو گئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس وقت مودی حکومت ایس سی-ایس ٹی سے متعلق اعلیٰ ذات کی زبردست مخالفت کا سامنا کر رہی ہے اور ایسے میں ’سَوَرن چھاتر مورچہ‘ کی طرف سے صدارتی عہدہ پر انتخاب لڑ رہیں بین الاقوامی سطح کی کھلاڑی ندھی مشرا سے ہم نے بات کی اور ریزرویشن پر ان کے نظریات و ایجنڈے کو جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’سوشل جسٹس کے نام پر اعلیٰ ذات کو سبھی پارٹیوں نے دھوکہ دیا ہے، ریزرویشن کو اقتصادی بنیاد پر نافذ کیا جانا چاہیے اور جتنے بھی مظلوم، متاثر و غریب لوگ ہیں، وہ چاہے جس بھی ذات اور مذہب کے ہوں، ان کو اس کا فائدہ ملنا چاہیے۔ ہم کسی بھی طبقہ کے حقوق کو چھین کر اپنا حق نہیں لینا چاہتے لیکن سوشل اور اکونومک جسٹس کی صحیح معنوں میں مطالبہ کرتے ہیں۔ باپسا جیسی پارٹیاں گندی سیاست کرتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
اُدھر دلت تنظیم باپسا کے کارکنان اور جہلم کے صدر سمت کمار کا کہنا ہے کہ ’’باپسا لیفٹ، رائٹر اور سنٹر کی سیاست سے آزاد ہے۔ ہم خود اہل ہیں اور خود سے اپنی آواز اٹھائیں گے۔ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتی طبقہ کے لیے ہماری تنظیم جدوجہد کرتی آئی ہے۔ دفعہ 377 پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے کونسلر کے ایک عہدہ پر ’ایل جی بی ٹی‘ طبقہ سے آنے والے اسٹوڈنٹ کو امیدوار بنایا ہے۔ تعلیم، برابری اور ہر شخص کو فائدہ پہنچانا ہمارا اہم مقصد ہے۔‘‘
ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جے این یو طلبا یونین انتخاب میں بازی کس کے ہاتھ جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا سالوں سے چلی آ رہی روایت کے طور پر لیفٹ پارٹیوں کے اتحاد پر ہی یقین کرتے ہیں یا پھر اقتدار کی چابھی کسی دیگر تنظیم کو سونپنا پسند کریں گے۔ انتخاب کل یعنی 14 ستمبر کو ہونا طے ہے جس کا نتیجہ 16 ستمبر کو آئے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز