مقامی پولس افسر راجیش پرشاد نے بتایا کہ یہ خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم آشا کرن کے لیے کام کرتی ہیں جس کی معاونت ایک مقامی مسیحی مشنری گروپ کرتا ہے۔ پولس کے پاس درج ان خواتین کی شکایت میں کہا ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک ڈرامے میں پرفارم کر رہی تھیں جب انہیں اغوا کیا گیا۔ کھنٹی کا ضلع ماؤ نواز مسلح باغیوں کا بھی گڑھ ہے۔
پولس افسر پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران تک پہنچنے کے لیے متعدد افراد سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے بلیک میلنگ کی غرض سےسارے واقعے کی ویڈیو بنائی اور خواتین کو پولس کے پاس جانے کی صورت میں دھمکی بھی دی۔
پولس نے علاقے میں پتھل گاڑی نامی ایک تحریک کے کچھ حامیوں کو بھی حراست لیا ہے۔ ’پتھل گاڑی‘ ایک فوج مخالف تحریک ہے جو متعدد قبائلی دیہاتوں میں مقبول ہے۔
Published: undefined
مقامی پولس افسر راجیش پرشاد کا کہنا ہے کہ اغوا اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی طبی جانچ کی گئی ہے اور پولس کو نتائج کا انتظار ہے۔
جھاڑکھنڈ کے ضلع پاکور میں گزشتہ ماہ ایک سترہ سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔
جنسی زیادتی اور اقدام قتل جیسے واقعات کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے ایسے جرائم کے سدباب کے لیے قوانین سخت بنائے ہیں تاہم ان اقدامات کے باوجود ایسے جرائم کے واقعات میں کمی کے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز