جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی جمعہ سات جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں ملزمان نے جرمنی میں ایک رائسین بم سے حملے کی تیاری کی تھی اور وہ دونوں دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے متاثر تھے۔ تیونسی نژاد ملزم کو گزشتہ برس جون میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کی جرمن بیوی کو تقریباﹰ ایک ماہ بعد پچھلے سال جولائی کے اواخر میں حراست میں لیا گیا تھا۔
Published: undefined
جرمن پولیس کو ان دونوں ملزمان کے مبینہ منصوبے کی اطلاع ایک غیر ملکی انٹیلیجنس ادارے نے دی تھی۔ انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق اس جوڑے نے رائسین سے جو حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، وہ ممکنہ طور پر ایک سو تک انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن سکتا تھا۔
Published: undefined
اس مقدمے کی سماعت ڈسلڈورف شہر کی انتہائی سخت سکیورٹی والی ایک اعلیٰ صوبائی عدالت میں شروع ہوئی۔ ان دونوں ملزمان کو پندرہ پندرہ سال تک قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔
Published: undefined
مقدمے کی سماعت کے آغاز پر استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ 30 سالہ تیونسی نژاد ملزم سیف اللہ اور اس کی 43 سالہ جرمن بیوی یاسمین کو اس لیے سخت سے سخت سزائیں سنائی جائیں کہ انہوں نے 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے لیے اپنی ہمدردی کی وجہ سے جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کے لیے ایک ایسا حیاتیاتی ہتھیار تیار کیا تھا، جو بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا تھا۔
Published: undefined
جرمنی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں کسی ملزم یا ملزمان کو کسی حیاتیاتی ہتھیار کے ذریعے دہشت گردانہ حملے کی تیاری کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ ہی جرمن تفتیشی اہلکاروں نے ان کے کولون شہر کے کوروائلر نامی علاقے میں واقع فلیٹ سے انتہائی زہریلا مادہ رائسین بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
Published: undefined
استغاثہ کے مطابق ان ملزمان نے کسی ریستوراں یا شاپنگ سینٹر جیسی بند جگہ پر اس رائسین بم سے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے لیے سیف اللہ اور اس کی بیوی نے رائسین انٹرنیٹ کے ذریعے خریدی تھی۔ ساتھ ہی اس بم کو زیادہ سے زیادہ ہلاکت خیز بنانے کے لیے 250 ایسے چھوٹے چھوٹے فولادی گولے بھی خریدے گئے تھے، جن کے ذریعے وہ اپنی اس مبینہ کارروائی کو ایک 'کلسٹر بم‘ سے حملے کے طور پر عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔
Published: undefined
اس بم میں استعمال کے لیے خاص طرح کا بارودی مواد سیف اللہ نے پولینڈ جا کر خریدا تھا۔ استغاثہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ دونوں ملزمان طویل عرصے سے خود کو نہ صرف داعش کے اہداف و مقاصد کا حامی قرار دیتے تھے بلکہ وہ اس شدت پسند تنظیم کے نام نہاد 'جہاد‘ میں عملی طور پر شامل بھی ہونا چاہتے تھے۔
Published: undefined
اس مقدمے کی عدالتی سماعت کے پہلے روز دونوں ملزمان نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اپنے وکلاء کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ وہ فی الحال اپنے خلاف عائد کردہ الزامات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز