سائبر سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کا ایران صرف ایک صورت میں جواب دے سکتا ہے اور وہ سائبر حملے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ آیا ایرانی ماہرین کمپیوٹر اور ہیکرز اس قدر مہارت حاصل کر چکے ہیں کہ اُن کی مہارت اور چابکدستی امریکی اداروں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
Published: 09 Aug 2018, 11:07 AM IST
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ رواں برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا اور تب سے امریکی اداروں میں ایرانی سائبر حملوں کے خدشات بڑھنا شروع ہوئے ہیں اور اس مناسبت سے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آگے ایرانی سائبر اٹیک میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔
Published: 09 Aug 2018, 11:07 AM IST
ایک امریکی ادارے ریکارڈڈ فیوچر (Recorded Future) میں اسٹریٹیجک خطرات کے خلاف اقدامات کرنے والی خاتون ماہر پریسیلا موریچی کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسے کسی خطرے کا امکان تو ابھی تک موجود نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ پر ایرانی سرگرمیوں میں اضافہ ضرور نوٹ کیا گیا ہے۔ موریچی کے خیال میں یہ اضافہ حالیہ ہفتوں میں بڑھا ہے۔
Published: 09 Aug 2018, 11:07 AM IST
ریکارڈڈ فیوچر سائبر تھریٹ کے معاملات سے وابستہ ہے۔ یہ کمپیوٹر تنظیم ریکارڈڈ فیوچر امریکی ریاست میساچوسٹس میں قائم ہے اور اسی نے رواں برس مئی میں ایرانی سائبر حملوں کے خطرے سے آگاہی دی تھی۔ اس ادارے نے کہا تھا کہ ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی کے بعد ایرانی حکومت اگلے دو سے چار مہینے میں امریکی اداروں پر سائبرحملوں کا سلسلہ شروع کر سکتی ہے۔
امریکا کے خفیہ اداروں کا بھی اتفاق ہے کہ ایران امریکی اداروں پر سائبر حملے شروع کرنے والا ایک بڑا ملک بن سکتا ہے۔ امریکی اداروں کو چین، شمالی کوریا اور روس کی جانب سے بھی سائبر حملوں کے خطرات لاحق ہیں۔ ان ممالک کے حملوں کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی ہیں۔
امریکا نے سن 2012 اور سن 2014 میں بھی چند سائبر حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا تھا۔ ان حملوں میں امریکی بینکوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان سائبر حملوں کا نشانہ بننے والے بینکوں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
Published: 09 Aug 2018, 11:07 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Aug 2018, 11:07 AM IST