دونوں ممالک نے اپنے سفارتی عملے کی تعداد کم کی ہوئی ہے اور تجارت بھی کسی حد تک متاثر ہے۔ تاہم اسلام آباد کی طرف سے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپنے ملک کے اہلکاروں تک رسائی کے فیصلے کو کئی حلقے اس تناؤ کی فضا کو کم کرنے میں معاون سمجھتے ہیں۔ معروف سیاست دان، نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل بزنجو نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خیال میں یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اور ہم اس خیال کے حامی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہیں۔ دونوں ممالک کو اپنے سیاسی، سفارتی اور تجارتی روابط کو بھی بہتر بنا نا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔‘‘
Published: undefined
تاہم حاصل بزنجو نے حکومت کی پالیسی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا،''میرے خیال میں حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ ایک طرف وہ بھارت کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں۔ تو گالیاں اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ ہمیں مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما فاورق طارق نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے دونوں اطراف برف پگھل سکتی ہے۔ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ دونوں ممالک لائن آف کنڑول کو نارمل کریں۔ اپنے سفارتی عملے کی تعداد بڑھائیں، تجارت کھولیں اور عوامی روابط کو بھی فروغ دیں۔‘‘
Published: undefined
تاہم کئی ماہرین اس اقدام سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھ رہے۔ سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا خیال ہے کہ پاکستان جتنی بھی خیر سگالی دکھا دے، بھارت سے خیر کی توقع نہیں ہے۔
Published: undefined
شمشاد احمد نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان نے کلبھوشن کی بھارتی افسران سے ملاقات کسی دباؤ کے تحت کرائی ہے یا بین الاقوامی برادری کو خوش کرنے کے لیے کرائی۔ پاکستان ایک مہذب ملک ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ہر حال میں پوری کرتا ہے۔‘‘
Published: undefined
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے، بین الاقوامی طاقتیں اس کشیدگی کو کم کرانے کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں۔ انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگوں کو ختم کروانے میں روس اور امریکا نے کردار ادا کیا۔ کارگل کی جنگ کے دروان واشنگنٹن نے بہت متحرک کردار ادا کیا اور پلوامہ کے بعد بھی صدر ٹرمپ کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں ممالک پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے برطانیہ واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی دنیا اب بھی اس کشیدگی کو کم کرانے میں مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا،''میرے خیال میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد پاکستان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا تو پاکستان کو یہ کرنا ہی تھا۔ بین الاقوامی برادری اس صورت حال پر پریشان ہے اور امریکا و برطانیہ ہمیشہ ایسی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے بھارتی پائلٹ کو بھی امریکی دباؤ پر چھوڑا اور ابھی بھی ہم پر یہ دباؤ ہے کہ ہم بھارت سے کشمیر سمیت تمام معاملات دو طرفہ طور پر طے کریں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز