ایران کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان 'ایجنٹوں‘ کو ملکی جوہری اور فوجی تنصیبات کی جاسوسی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ تہران حکومت نے ان میں سے کئی ایک کو سزائے موت بھی سنا دی ہے۔
Published: undefined
ایرانی خفیہ ایجنسی کے ایک عہدیدار کا تہران میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ گرفتاریاں حالیہ چند ماہ کے دوران عمل میں لائی گئیں اور گرفتار کیے گئے افراد فوجی اور جوہری 'حساس تنصیبات‘ پر کام کر رہے تھے۔ تاہم اس عہدیدار نے یہ معلومات فراہم نہ کیں کہ ان میں سے کتنے افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور ایسا کب کیا گیا؟
Published: undefined
اس پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے عہدیدار نے اپنا نام تو نہ بتایا لیکن اس کی شناخت ایرانی انٹیلی جنس کی وزارت کے تحت محکمہ برائے انسداد جاسوسی کے ڈائریکٹر کے طور پر کی گئی۔ یہ پریس کانفرنس اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیرمعمولی تھی۔ عام طور پر خفیہ اہلکاروں کی طرف سے ایسی پریس کانفرنس کی ہی نہیں جاتی اور اگر کی بھی جائے تو پریس کانفرنس کرنے والے کا نام ضرور بتایا جاتا ہے۔
Published: undefined
ایرانی حکام کے مطابق گرفتار کیے گئے جاسوسوں کو مبینہ طور پر 'جدید ترین تربیت‘ فراہم کی گئی تھی لیکن کوئی بھی اپنے 'تخریبی مشن‘ میں کامیاب نہ ہوا۔ ایرانی حکام کے دعوے کے مطابق ان افراد کو حساس معلومات جمع کرنے، تکنیکی اور خفیہ سرگرمیاں انجام دینے اور نگرانی کے آلات نصب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایرانی بیانات کے مطابق ان جاسوسوں کو امریکی ویزے یا پھر امریکا میں ملازمت دینے کی پیشکش بھی کی گئی تھی اور ان میں سے کچھ جاسوسوں نے دوبارہ امریکا کے خلاف جاتے ہوئے ایران کے لیے کام کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔
Published: undefined
ایرانی حکام نے ایک ایسی سی ڈی بھی صحافیوں کو فراہم کی، جس میں مبینہ طور پر ایک غیرملکی خاتون جاسوس کی ویڈیو ہے، جو سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس سی ڈی میں امریکی سفارت خانوں کے ایسے متعدد اہلکاروں کے نام بھی شامل ہیں، جو ترکی، بھارت، زمبابوے اور آسٹریا میں کام کرتے ہیں اور ان مبینہ ایرانی جاسوسوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔
Published: undefined
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس ایرانی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ فوکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ایرانی حکومت کی تو جھوٹ بولنے کی اپنی ہی ایک تاریخ بھی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز