گزشتہ دنوں ایک آر ٹی آئی کے جواب میں جو کچھ منظر عام پر آیا، اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘ نعرہ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ آر ٹی آئی عرضی کے جواب میں لکھنؤ کے ایڈیشنل سپرنڈنٹنڈنٹ آف پولس (اسمبلی) اور اطلاعات عامہ افسر کے ذریعہ بتایا گیا کہ لکھنؤ کے 43 تھانوں میں سے کسی میں بھی موجودہ وقت میں مسلم تھانیدار کی تقرری نہیں ہے۔ راجدھانی کے تھانوں میں تعینات صد فیصد ہندو تھانیداروں میں سے بھی 11.5 فیصد ہی دیگر پسماندہ طبقہ یعنی او بی سی سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنے ہی فیصد ایس سی/ایس ٹی طبقہ کے ہیں۔ اس کے علاوہ راجدھانی کے 77 فیصد تھانوں میں اعلیٰ ذات کے لوگ قابض ہیں۔
پبلک رلیشن افسر نے اپنے جواب میں مزید تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ لکھنؤ کے 43 تھانوں میں سے 18 میں برہمن، 12 میں کشتریہ، 2 میں کایستھ، 1 میں ویشیہ، 2 میں کُرمی، 1 میں مورائی، 1 میں کاچھی، 1 میں او بی سی، 1 میں دھوبی، 1 میں جاٹو، 1 میں کھٹک اور 2 میں شیڈولڈ کاسٹ کے تھانیدار تعینات ہیں۔
Published: undefined
آر ٹی آئی کارکن سنجے کے ذریعہ یہ عرضی دی گئی تھی جس کے جواب میں ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘ نعرے کی قلعی کھل گئی ہے۔ سنجے اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ریاست میں تقریباً 19 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن لکھنؤ کے 43 تھانوں میں ایک بھی مسلمان تھانیدار نہیں تعینات کیا گیا ہے جب کہ 38 فیصد آبادی والے او بی سی کا لکھنؤ کے تھانوں میں نمائندگی محض 11.5 فیصد ہے۔ اسی طرح کل آبادی کا 21 فیصد حصہ شیڈولڈ کاسٹ کا ہونے پر بھی اس راجدھانی کے تھانیداروں میں ان کی نمائندگی 11.5 فیصد پر ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے، جب کہ کل آبادی کے 22 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ راجدھانی کے 77 فیصد تھانوں پر قابض ہیں۔
سنجے کا کہنا ہے کہ حکومتوں سے امید تو یہی کی جاتی ہے کہ ذات، طبقہ اور مذہب سے اوپر اٹھ کر کام کریں گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبے کے پولس تھانوں میں بی ایس پی کی حکومتوں میں شیڈولڈ کاسٹ کا دبدبہ قائم رہتا ہے تو سماجوادی پارٹی میں یادوؤں کا اور بی جے پی میں برہمن-ٹھاکروں کا۔ انھوں نے کہا کہ یہ روایت سی قائم ہو گئی ہے جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔
سنجے نے بتایا کہ اپنی تنظیم ’تحریر‘ کی جانب سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھ کر مطالبہ کریں گے کہ سرکاری عہدوں پر بغیر کسی تفریق سماج کے سبھی طبقات کو مناسب نمائندگی دی جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز