چند حلقوں کا خیال ہے کہ ایسی درخواستوں کے پیچھے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی ہے بلکہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزا سے بچانا چاہتی ہے۔ نہ صرف بہت سے سیاست دان اور وکلاء بھی اس حکومتی اقدام پر غصے میں ہیں بلکہ منگل چھبیس نومبر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ملکی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر دی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ وہ پرویز مشرف کے مقدمے کی کارروائی مکمل کر کے اپنا فیصلہ سنائے۔
Published: undefined
پاکستانی میڈیا نے ماضی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ ملکی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف نے ان کی مدد کی تھی۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ جی ایچ کیو کے اعلیٰ حلقے آج بھی سابق صدر کو سزا بچانا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے سابق صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پرویز مشرف کا دفاع کر کے اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پورا کر کے جمہوریت کو بہت بڑا نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک آئین شکن کو غداری کے مقدمے میں بچانے سے آئین شکنوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو غدار نہ کہا جائے بلکہ آئین شکن کہا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک سے اس سے بڑی کوئی غداری ہو سکتی ہے کہ آپ ملک کا آئین توڑ دیں جو ریاست کی اصل اساس ہے۔ میرے خیال میں مشرف کو صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی بچا رہی ہے، جو نہیں چاہتی کہ فوج کے سابق سربراہ کے سینے پر غداری کا داغ کوئی لگے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایسشن کے سابق عہدیدار لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''پی ٹی آئی مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس حکومت میں اس کے حمایتی موجود ہیں، جو اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسی مدد کسی اور حکومت کے دور میں ممکن نہیں۔ پرویز مشرف کو ڈر ہے کہ اگر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، تو مشرف کی جائیدادیں اور ساری دولت چھن سکتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
کئی دیگر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کو ریلیف مل سکتا ہے لیکن لطیف آفریدی اس پہلو سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''مشرف ایک اشتہاری ہیں اور ایک اشتہاری کو اس وقت تک ریلیف نہیں مل سکتا جب تک وہ عدالت کے سامنے خود پیش نہ ہو۔ میرے خیال میں ان کو اس صورت حال میں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا اور عدالتوں کے لیے یہ بھی مشکل ہو گا کہ وہ اسپیشل کورٹ کو فیصلہ سنانے سے روکیں کیونکہ چیف جسٹس نے حال ہی میں اشارتاﹰ پرویز مشرف کے مقدمے کا تذکرہ بھی کیا تھا اور اب لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ اس مقدمے میں سابق آمر کو سزا ملتی ہے یا نہیں۔‘‘
Published: undefined
لطیف آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے وہ مشرف کو برا بھلا کہتے تھے اور آج وہ انہیں بچانا چاہ رہے ہیں، ''عمران خان کی زبان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ وہ یو ٹرن لینے کے ماسٹر ہیں۔ پھربول دیں گے کہ یہ یو ٹرن ہے۔ انہوں نے ایسے ٹرن کئی بار لیے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
پرویز مشرف کو نواز شریف کے دور حکومت میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اب ن لیگ بھی اس مسئلے پر پی ٹی آئی پر تنقید کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہی مشرف کی ہے تو وہ اس سابق آمر مطلق کو کیوں نہیں بچائے گی، ''اس حکومت میں پرویز خٹک سے لے کر فروغ نسیم تک، جس نے الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا کہا تھا، سب مشرف کے آدمی ہیں۔ ہم تو پہلے ہی دن سے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے۔ کشمیر سے لے کر سی پیک اور اب مشرف کے مسئلے تک پر، اس حکومت کی پالیسی نے ظاہر کر دیا ہے کہ عمران خان کو ایک خاص مقصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے اس اقدام پر کوئی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ ہمیں پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ یہ کیا کریں گے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
اگرچہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس مسئلے پر حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تاہم کچھ رہنما اس حکومتی اقدام سے نالاں بھی ہیں اور اسے پارٹی کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ فیصلہ انتہائی غیر دانش مندانہ ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم پرویز مشرف اور عدالتوں کے معاملے میں شامل ہو جائیں۔ مشرف کو سزا ہوتی ہے، تو ہونے دیں۔ اگر ان کی جائیداد چھن جاتی ہے، ضبط ہو جاتی ہے، تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومتی اقدام سے ایک طرف سیاست دان ہم پر تنقید کریں گے تو دوسری طرف وکلاء بھی ہمارے خلا ف ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی شدید تنقید کرے گا۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس حکومتی اقدام کی وجہ سے ہم ہر طرف سے تنقید اور حملوں کی زد میں ہوں گے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز