خبریں

روس اور پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات، پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو خوش آئند قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ناراضگی کو خاطر میں نہ لائے۔

روس اور پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات، پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟
روس اور پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات، پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ 

ماضی میں پاکستان کا سخت حریف سمجھا جانے والا روس اب اسلام آباد سے بہتر تعلقات کا خواہاں نظر آتا ہے۔ روس نے نہ صرف سٹیل مل کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے بلکہ پاکستان کے توانائی اور ریلوے کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری اور معاونت کرنے میں بھی دلچسپی لی ہے۔

Published: undefined

حال ہی میں روس کے ایک تجارتی وفد نے وزیرتجارت اور صنعت ڈینس مینڈرو کی قیادت میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ اس سال کے شروع میں روس نے توانائی کے پاکستانی شعبے میں چودہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

Published: undefined

حالیہ ملاقاتوں کے پیش نظر یہ امید کی جا رہی ہے کہ روسی کمپنیاں کراچی سے لاہور تک گیس کی پائپ لائن بچھائیں گی، جب کہ دونوں ممالک دفاعی شعبے میں بھی تعاون بڑھائیں گے۔ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان نے اس امر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''سرد جنگ ختم ہو گئی ہے اور اب ہمارے روس سے تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں اس کا کیا رد عمل ہو گا اور روس سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہییں تاکہ خطے میں امن و استحکام آ سکے۔‘‘

Published: undefined

کئی ناقدین کا خیال ہے کے سرد جنگ کے دوران پاکستان نے مغرب کی محبت میں بلاوجہ روس سے دشمنی مول لی۔ اسلام آباد نے سیٹو اور سینٹو جیسے مغربی معاہدوں کا حصہ بن کر ماسکو کو اشتعال دلایا اور ایک مرحلے پہ سوویت روس نے پاکستان کو عسکری طور پر نشانہ بننانے کا سوچا۔

Published: undefined

یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر ذاکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان نے سارا انحصار مغربی ممالک پر کیا اور آج بھارت فائدے میں ہے، جبکہ پاکستان کو اس سے نقصان ہوا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نجم الدین نے کہا، ''پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک بڑی طاقت پر انحصار کرنا نہیں چاہتا۔ اسلام آباد کو معلوم ہے کہ روس کا جھکاؤ اب مشرقی ممالک کی طرف ہو رہا ہے اور اس نے اپنے سکیورٹی دستاویز میں بھی اس جھکاؤ کا اظہار کیا ہے. لہذا پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں جبکہ دفاع کے معاملے پر بھی دونوں ممالک میں بات چیت جاری ہے۔ روس کا کئی علاقائی تنظیموں میں اہم کردار ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں کے خیال میں استحکام کے لیے روس بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

مغرب سے صرف شمشاد احمد خان کو ہی گلہ نہیں بلکہ پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار بھی مغرب سے نالاں نظر آتے ہیں۔ تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ مغرب نے ہمیشہ صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔

Published: undefined

اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مغرب کو ہماری قربانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں قربان کی ہیں۔ ہمارا کئی بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ہمیں صرف لیکچر دیے اور دھمکی دی اور جب عمران خان نے حالیہ دورہ کیا اس دوران بھی باتیں کی گئیں کہ امریکا پاکستان کی مدد کرے گا۔ لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ تھا۔ ہم نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو سی پیک پر اعتراض ہے تو آپ بھی اس میں حصہ دار بن جائیں لیکن وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو ایسی صورتحال میں پاکستان ہر اس ملک کی طرف دیکھے گا جو پاکستان کے دفاعی شعبوں کی صلاحیت کو بڑھا سکے اور پاکستان کی مالی مدد کر سکے۔‘‘

Published: undefined

جنرل امجد کا شکوہ تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی مدد کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی امریکا کا ساتھ دیا، لیکن امریکا ہمیشہ نئی دہلی کا ساتھ دیتا ہے اور بھارت جب بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے تو امریکا اس کا ہمنوا ہوتا ہے۔

Published: undefined

اسی تناظر میں ان کا مزید کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر نئی دہلی کو پریشانی ہوگی۔ لیکن ہم انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ امریکا سے اپنے تعلقات بہتر کر رہے تھے اور امریکا کے قریب ہو رہے تھے تو ہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس طرح کی پالیسی اپنے لیے بہتر سمجھے، اسے اپنائے۔ میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان تعاون کی یہ بات اور تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ خطے میں استحکام آسکے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined