بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کے لیے اپنے سالانہ مشورے میں اقتصادی سست روی اور آمدنی میں کمی کے بعد گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ملکی وزارت خزانہ سے پوچھا ہے کہ قومی بجٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں نیز اشیاء اور خدمات سے متعلق ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں مالی وسائل کے حصول کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے، آیا وہ واقعی حاصل کیا جا سکتا ہے؟
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم اپریل سے 15 اگست تک کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ شرح کم ہو کر 4.7 فیصد ہو گئی حالانکہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرح 9.6 فیصد تھی اور مطلوبہ شرح تو 17.3 فیصد ہے۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
اس سے قبل منصوبہ بندی کے حکومتی ادارے 'نیتی آیوگ‘ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ”ملک کی اقتصادی صورت حال غیر معمولی طور پر تشویش ناک ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اس وقت کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی قرضے دینے کو تیار ہے۔" راجیو کمار کا خیال ہے، ''پرائیویٹ سیکٹر میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنا ہو گا تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔‘‘ نیتی آیوگ کے چیئرمین بھارتی وزیر اعظم نریند رمودی ہیں۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی ملکی معیشت میں سست روی کو انتہائی حد تک باعث تشویش قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”میرا ماننا ہے کہ معیشت میں سست روی یقینی طور پر بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں فکر مند ہیں۔ نئی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں سے قرض لینے سے کوئی سدھار تو ممکن نہیں مگر صرف وقتی بہتری ہی آ سکتی ہے۔"
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
آئی ایم ایف نے اپنے مشورے میں جی ایس ٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور بالواسطہ ٹیکس نظام کو مزید سہل بنانے پر زو ر دیا ہے۔ اقتصادی سست روی کا اثر مختلف شعبوں پر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اہم صنعتوں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر اس اقتصادی سست روی کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل (سیام) کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں دس لاکھ ملازمتوں کے ختم ہو جانے کاخطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے، تو یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
بھارت کی فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز (فاڈا) کے مطابق گزشتہ تین ماہ یعنی مئی سے جولائی کے درمیان گاڑیاں فروخت کرنے والے تاجروں نے اپنے تقریباً دو لاکھ ملازمین فارغ کر دیے۔ فاڈا کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ مستقبل میں مزید ملازمتیں ختم ہونے سے بہت سو شو رومز بند ہو سکتے ہیں۔ فاڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں 271 شہروں میں 286 آٹو موبائل شورومز بند ہو چکے ہیں۔ کاروں کی فروخت میں 31 فیصد کمی ہو چکی ہے جو گزشتہ 19برسوں کی سب سے اونچی شرح ہے۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
بھارت میں اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔ اس شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے پچھلے دنوں ملک کے متعدد قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
معیشت میں سست روی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ دیہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بسکٹ تیار کرنے والی ایک 90سال پرانی اور سب سے بڑی کمپنی پارلے نے اسی سست روی کی وجہ سے اپنے دس ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دینے کا عندیہ دیا ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں بسکٹ کی فروخت بہت کم ہو جانے کی وجہ سے کمپنی اپنی پیداوار کم کر سکتی ہے اور ایسا ہونے پر بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
پارلے اپنے بسکٹوں کا ایک پیکٹ صرف پانچ روپے میں فروخت کرتی ہے، جو کہ دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بسکٹوں کی فروخت میں سات سے آٹھ فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔ بھارت ہی میں بسکٹ تیار کرنے والی ایک اور بہت بڑی کمپنی برٹانیہ کا کہنا ہے کہ لوگ اب پانچ روپے کا بسکٹ کا پیکٹ خریدنے سے پہلے بھی دو مرتبہ سوچتے ہیں۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
برآمدات کے محاذ پر بھی اس وقت بھارت کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کہ مصنوعات برآمد کی تھیں۔ لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ گویا برآمدات میں 35 فیصد کی کمی ہوئی۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
اس تشویش ناک صورت حال کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ساتھ صلاح مشورے بھی کیے تھے۔ انہوں نے بے تحاشا ملازمتوں کے ختم ہو جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو اقتصادی سست روی کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Aug 2019, 8:00 AM IST