ہریانہ کے گروگرام یعنی گڑگاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید شدت اس وقت آ گئی جب 16 ستمبر کو ہندو تنظیموں نے ایک پنچایت کے دوران مسلمانوں کو مکان یا دکان کرایہ پر نہ دینے کا فیصلہ لیا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق ہریانہ کے گروگرام واقع شیتلا کالونی میں ایک گھر کو مسجد کی شکل میں استعمال کیے جانے کا تنازعہ جب سے شروع ہوا، علاقے کا ماحول لگاتار کشیدہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ دانشور ہندو-مسلم معاملے کو سلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن ہندو تنظیمیں کسی بھی حال میں مسلمانوں کو گڑگاؤں میں دیکھنا پسند نہیں کر رہے۔
دراصل 12 ستمبر کو مسجد شیتلا کالونی واقع ایک مسجد کو میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ سیل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مسلم تنظیمیں اس سیل کو کھلوانے کے لیے لگاتار کوششیں کر رہی ہیں لیکن دوسری طرف ہندو تنظیموں نے مسجد کی سیل کھولنے پر تحریک شروع کرنے کی تنبیہ دے ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے ذریعہ اگر اس سیل کو کھولنے کی کوشش ہوئی تو ایک بڑی تحریک شروع ہوگی جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ جس کو مسلمان مسجد بتا رہے ہیں وہ ایک گھر ہے اور یہاں نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔ دوسری طرف مسلمانوں کا کہنا ہے کہ 2016 میں اسے مسجد کی تعمیر کے لیے ہی خریدا گیا تھا اور اس کے کاغذات ان کے پاس موجود ہیں۔
Published: undefined
حالات کے پیش نظر انتظامیہ نے مسلمانوں سے مسجد کا سیل کھولنے کا وعدہ بھی گزشتہ دنوں کیا تھا لیکن ہندو تنظیموں کے دباؤ کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ مزید دباؤ بنانے کی نیت سے ہی 16 ستمبر کو ہندو تنظیموں نے سوامی وویکانند گری کی موجودگی میں پنچایت کیا۔ اس پنچایت کے دوران موجود ہندوؤں نے فیصلہ لیا کہ وہ مسلم خاندانوں کو کرائے پر گھر اور دکان نہیں دیں گے۔ ساتھ ہی ہندو تنظیموں نے کہا کہ مسجد کو سیل کرنے سے پہلے ضلع ڈپٹی کمشنر نے ایس ڈی ایم سے اس کی رپورٹ تیار کروائی تھی، اس کے بعد ہی مسجد کو سیل کیا گیا۔ اس لیے مسلمانوں کی باتوں میں آ کر اس سیل کو نہیں کھولا جانا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined