اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورہ امریکا کے دوران ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں باضابطہ طور پر اس پہاڑی سلسلے پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے ہی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ وہ 52 برس بعد گولان کے مقبوضہ علاقے پر مکمل اسرائیلی حق تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدوں اور ضوابط کو مسترد کیا ہے، اس سے قبل انہوں نے سن 2017 میں یروشلم کو باضابطہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ پر ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس امریکی اقدام کا تعلق اسرائیل میں اپریل میں ہونے والے عام انتخابات سے بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو غزہ سے ایک راکٹ فائر کیے جانے کے بعد پیر کو اپنا دورہ امریکا ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے ہیں۔ اس راکٹ حملے میں سات افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسرائیل وزیر اعظم چار روزہ دورے پر اتوار کو ہی واشنگٹن پہنچے تھے۔
Published: undefined
اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام کے علاقے گولان پر قبضہ کر لیا تھا اور سن 1981 میں اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا تھا، تاہم بین الاقوامی برادری اس اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔گولان کے علاقے میں قریب 12 سو مربع کلومیٹر کا اعلان بفر زون کہلاتا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات ہے۔
Published: undefined
گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑیاں کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے۔ یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ سمندر نما جھیل خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس میں سے اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی مستفید ہوتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز