جرمن دارالحکومت برلن سے پیر سترہ فروری کو ملنے والی رپورٹوں میں وفاقی حکومت کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا کہ انتہائی دائیں بازو کے جس جرمن شدت پسند گروپ نے ملک میں وسیع پیمانے پر مساجد پر مسلح حملوں کا منصوبہ بنایا تھا، اور جسے قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں نے قبل از وقت ناکام بھی بنا دیا، اس کے لیے مثال گزشتہ برس نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کو بنایا گیا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
ان انتہا پسند ملزمان کی تعداد 12 ہے اور انہیں پولیس نے گزشتہ جمعے کے روز جرمنی کے مختلف شہروں میں چھاپے مار کر گرفتار کیا تھا۔
Published: undefined
جرمن حکومتی ترجمان نے بتایا کہ ان ملزمان سے اب تک کی جانے والے تفتیش کے جو حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق ان شدت پسندوں نے متعدد مقامات پر جرمنی میں مسلم مذہبی اقلیت کی عبادت گاہوں پر بڑے دہشت گردانہ حملوں کا ارادہ بنا رکھا تھا۔
Published: undefined
اسی بارے میں جرمن میڈیا میں کل اتوار کو شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی ملکی تفتیش کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے یہ جرمن شدت پسند اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ انہیں مختلف شہروں میں نماز کے دوران تقریباﹰ بیک وقت کئی ایسے مربوط خونریز حملے کرنا تھے، جن کا مقصد جرمنی میں مسلمان برادری کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا تھا۔ دریں اثناء برلن میں وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان بیورن گروئنے وَیلڈر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا، ''اب تک ان شدت پسندوں سے چھان بین کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ انتہائی حیران کن ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں ان شدت پسندوں کے ایسے چھوٹے چھوٹے گروہ موجود ہیں، جن کے ارکان حیران کن حد تک مختصر وقت میں انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ہو چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
اسی بارے میں وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے آج پیر کے روز کہا، ''یہ ریاست کا کام ہے، اور ظاہر ہے کہ اس ریاست کی حکومت کا بھی، کہ وہ کسی بھی ملک میں ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے اپنے عقیدے پر آزادانہ عمل کر سکنے کو یقینی بنائے۔ اس بات کا اس امر سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی فرد کس مذہب کا ماننے والا ہے۔‘‘
Published: undefined
اشٹیفن زائبرٹ نے کہا، ''جرمنی میں ملکی قوانین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے والے ہر فرد اور ہر برادری کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر آزادانہ اور کسی بھی قسم کے خطرے کے بغیر عمل پیرا ہو سکے۔‘‘
Published: undefined
ملکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے جرمن شدت پسندوں کے اس گروہ نے منصوبہ بنا رکھا تھا کہ وہ ملک میں تقریباﹰ ایک ہی وقت پر کئی مسلم مساجد پر نیم خود کار ہتھیاروں سے ایسے خونریز حملے کرے گا، جیسے گزشتہ برس موسم بہار میں نیوزی لینڈ میں کیے گئے تھے۔ تب کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر کیےگئے ان دہشت گردانہ حملوں میں مجموعی طور پر 51 افراد مارے گئے تھے۔
Published: undefined
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس زیر حراست گروہ کا سرغنہ ایک ایسا شدت پسند ہے، جو اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے جرمن اداروں کے حکام کی نظروں میں تھا اور جس کی آن لائن چیٹنگ پر بھی حکام نظر رکھے ہوئے تھے۔
Published: undefined
گروہ کے اس سرغنے نے حملوں کے منصوبے کی تفصیلات اپنے ساتھیوں کو ایک ایسی ملاقات میں بتائی تھیں، جس کا اہتمام گزشتہ ہفتے ہی کیا گیا تھا۔ ملزمان کی اس باہمی ملاقات کے بعد ہی جرمن پولیس نے کئی مقامات پر چھاپے مار کر ان شدت پسندوں کو گرفتار کیا تھا۔
Published: undefined
جرمن ہفت روزہ جرہدے ڈئر اشپیگل کے مطابق جرمن پولیس کے پاس اس وقت 53 ناموں پر مشتمل انتہائی دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسندوں کی ایک ایسی فہرست بھی موجود ہے، جو سب کے سب 'خطرناک‘ سمجھے جاتے ہیں اور ممکنہ طور پر خونریز حملے بھی کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز