جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اردن اور متحدہ عرب امارات سے ہوتے ہوئے ایران پہنچیں گے۔ تہران میں وہ اپنے ہم منصب محمد جواد ظریف سے ملاقات کریں گے۔ جرمن وزارت خارجہ نے جمعرات چھ جون کو کہا تھا کہ ماس تہران میں قیام کے دوران اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت میں ایرانی جوہری ڈیل کو فوقیت دیں گے۔
Published: undefined
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس گزشتہ ڈھائی برسوں میں ایران کا دورہ کرنے والے پہلے جرمن وزیر ہوں گے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خلیج فارس کی جغرافیائی، سیاسی اور عسکری صورت حال سے ساری دنیا پریشان ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر انتہائی زیادہ دباؤ بڑھا رکھا ہے۔
Published: undefined
یہ بھی اہم ہے کہ خطے میں صبر و تحمل میں بھی کمی آ رہی ہے۔ ایران سات جولائی سے جوہری ڈیل کی بعض بنیادی شرائط پر مزید عمل نہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ تہران حکومت نے واضح کر رکھا ہے کہ یورپی ممالک کو اس تاریخ سے قبل امریکی پابندیوں کے توڑ کے لئے عملی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
Published: undefined
ہائیکو ماس کے دورے کے بنیادی مقصد کی وضاحت برلن حکومت کی جانب سے اُن کے مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل سامنے آ چکی ہے۔ ماس ہر ممکن طریقے سے ایرانی جوہری ڈیل کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ ایران کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ سات جولائی کے انتباہ سے دستبردار ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کی موجودگی میں یورپی اقوام کے تہران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو فعال کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ اس دورے کے حوالے سے جرمن وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کو حالیہ دورے میں مطلع بھی کیا تھا۔ لیکن امریکا جوہری ڈیل کو بچانے کی یورپی کوششوں پر ناراضی ظاہر کر چکا ہے۔
Published: undefined
ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے عالمی معاشی نظام سے علیحدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایران یقینی طور پر تجارتی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ امریکی پابندیوں پر ایران کے سخت گیر حلقوں نے موقف دہرایا ہے کہ مغرب پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی وزارت خارجہ بھی گزشتہ ہفتے واضح کر چکی ہے کہ ڈیل کے علاوہ کسی موضوع پر بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ صورت حال جرمن وزیر خارجہ کے لیے خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
Published: undefined
حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات میں مصالحانہ رویہ محسوس کیا گیا ہے اور ڈائیلاگ کی بات کی گئی، لیکن موجودہ حالات میں ایرانی حکومت امریکا سے بات چیت شروع کرنے سے انکاری ہے۔ امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا موقف سخت ہے۔ امریکا کے سخت موقف رکھنے والے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی گزشتہ برس کی سخت شرائط میں سے ایک درجن کو کسی حد تک حذف کر دیا ہے۔ امریکا پوری طرح واضح کر چکا ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بولٹن اور ایران کے ساتھ جنگ میں ایک ہی شخص کھڑا ہے اور وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
Published: undefined
خلیج فارس میں امریکا نے طیارہ ساز جنگی بحری جہاز اور ایک بمبار اسکواڈرن تعینات کر دیا ہے۔ ہائیکو ماس کے ایرانی دورے کے بعد جاپانی وزیراعظم تہران پہنچیں گے۔ جاپانی وزیراعظم کے دورے کا امریکی صدر خیرمقدم کر چکے ہیں۔ امریکی اتحادی عراق اور عُمان بھی ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ ان ممالک کی پہلی خواہش ایران اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ لیکن جب تک امریکا اقصادی پابندیوں میں نرمی نہیں کرتا، ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اس مسئلہ کا جب بھی حل نکلے گا وہ تبھی پائیدار ثابت ہو سکے گا جب اس میں خطے کے دو بڑے فریق، ایران اور سعودی عرب کے سکورٹی مفادات کا تحفظ ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined