اس واقعے کو آج 27 برس مکمل ہوگئے اور ہر برس کی طرح آج بھی چھ دسمبر کے واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مسجد کی بازیابی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں بابری مسجد کے متعلق کئی پروگرام بھی ہو رہے ہیں، جن میں ماہرین بابری مسجد پر عدالتی فیصلوں کا تجزیہ بھی کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں بھی اس کے حوالے سے کافی کچھ لکھا گيا ہے۔
Published: undefined
ادھر ایودھیا میں بابری مسجد کی برسی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کیےگئے ہیں۔
Published: undefined
حکام نے جنوبی شہر حیدرآباد میں دفعہ 144 کے تحت جمعرات کی شام سے جمعے تک امتناعی احکامات نافذ کر دیے اور تمام طرح کے پروگرام و ریلیوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ چھ دسمبر کے روز امن و امان خراب کرنے کی غرض سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے بعض شدپسند عناصر حرکت میں ہیں اس لیے یہ احتیاطی تدبیر کی گئی ہیں۔
Published: undefined
بابری مسجد بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے ایودھیا میں تھی، جو نوابوں کے شہر لکھنؤ کے پاس ہی واقع ہے۔ مسجد کے حوالے سے تمام کاوشوں کے باوجود مسلمانوں کو اس میں ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے اور حکومتی وعدوں کے باوجود وہ مایوس ہوئے ہیں۔
Published: undefined
ایک طویل عدالتی جد و جہد کے بعد گزشتہ ماہ نو تاریخ کو بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر اراضی کی ملکیت اسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔ اس فیصلے نے بھارتی مسلمانوں کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
Published: undefined
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک سرکردہ رکن قاسم رسول الیاس، جو کئی برس سے مسجد کی بازیابی کی مہم سے وابستہ رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کے اس فیصلے سے تمام مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں انھوں نے کہا، ’’میرے خیال سے ہماری سپریم کورٹ اس معاملے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ تضادات سے پُر ہے جس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل تیار کی جا چکی ہے اور اسے آئندہ دو تین روز میں ہی دائر کر دیاجائےگا۔
Published: undefined
قاسم رسول الیاس نے مزید کہا، ’’عدالت نے اپنے فیصلے میں مسلمانوں کے ٹائٹل کو محفوظ بتایا ہے۔ فیصلے میں کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ عدالت نے سنہ 1549 میں مسجد کی تعمیر کو درست قرار دیا اور 1837 سے 1949 تک مسجد میں نماز کی ادائیگی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ عدالت نے مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ فیصلے میں مسجد کی شہادت کو غیر آئینی اور مجرمانہ فعل بتایا ہے، تو پھر مسجد کی زمین کو اس فریق کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں جو مسجد کے انہدام کی ذمہ دار ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ عدالت نے مسجد کے انہدام کو مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اس لیے اب حکومت پر لازم ہے کہ اس کے ملزمان کے خلاف جو مقدمے چل رہے ہیں اس کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں، تاکہ قصورواروں کو اس کی سزا مل سکے۔
Published: undefined
مولانا ابولکلام آزاد یونیورسٹی راجستھان کے وائس چانسلر پروفیسر اختر واسع کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے مقدمے میں عدالت عظمی کا فیصلہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں پروفیسر واسع نے کہا، ’’فیصلہ توقعات اور امیدیں سے تو برعکس ہے۔ بحثیت قوم مسلمانوں کو اس فیصلے سے مایوسی ہوئی لیکن عدالت عظمی کا فیصلہ ہے تو اسے ماننا تو پڑے گا ہی۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ چھ دسمبر کے روز اب مسلمانوں کو ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے جس سے فرقہ پرستی کو ہوا ملے اور یہ ڈر یا بزدلی کے سبب نہیں بلکہ حکمت عملی کے اعتبار سے ضروری ہے۔
Published: undefined
1992ء میں مسجد کے انہدام کے فوری بعد اس وقت کی حکومت نے اسی مقام پر مسجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ اس واقعے کے فوری بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں تقریبا دو ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
Published: undefined
بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ پہلا چھ دسمبر ہے۔ اب تک مسلمان چھ دسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے رہے ہیں اور مسجد کی تعمیر پر زور دیا جاتا رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے مسلم تنظیموں کی جانب سے مختلف طرح کے رد عمل سامنے آتے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم قیادت شدید اختلافات سے دوچار ہے۔
Published: undefined
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ نظر ثانی کی اپیل کے علاوہ ان کی مستبقل کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ بھارت میں بابری مسجد ہی کی طرح سینکڑوں ایسی تاریخی مساجد ہیں جن پر ہندو تنظیموں کا دعوی ہے۔ کہیں ان میں تالا پڑا ہے تو کسی پر کیس چل رہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز