امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل بدھ انیس دسمبر کو یکدم یہ اعلان کر دیا تھا کہ خانہ جنگی کی شکار مشرق وسطیٰ کی ریاست شام میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شکست دے دی گئی ہے اور شام میں تعینات امریکی دستوں کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ واپس اپنے وطن کو لوٹیں۔
Published: undefined
اس بارے میں صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ بھی لکھا تھا، ’’شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دے دی گئی ہے۔ اب ہمارے فوجی ہیرو اس ملک سے واپس آ سکتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
امریکی صدر کے اس غیر متوقع اعلان پر خود امریکا میں بھی وسیع تر حلقوں کی طرف سے نہ صرف تنقید کی گئی تھی بلکہ ٹرمپ کی اپنی ریپبلکن پارٹی کے کئی سرکردہ ارکان کانگریس نے بھی واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ کا یہ اعلان ایک خوفناک غلطی ہے، جس کے امریکا اور اس کی سلامتی کے لیے تباہ کن نتائج اگلے کئی برسوں تک سامنے آتے رہیں گے۔
Published: undefined
امریکی صدر نے داعش کی ناکامی کے اعلان کے ساتھ ہی ٹوئٹر پر کل یہ بھی لکھا تھا کہ شام سے امریکی دستوں کی واپسی کا عمل شروع بھی ہو گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ انخلاء اگلے 60 سے لے کر 100 دنوں کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔ شام میں تعینات امریکی دستوں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے اور وہ وہاں صدر بشار الاسد کی مخالف شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں کی عسکری مدد، تربیت اور مشاورت کر رہے ہیں۔
Published: undefined
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اب سیاسی اور سفارتی سطح پر ایک نئی مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ واشنگٹن کے تین بڑے یورپی اتحادی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اب ٹرمپ کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ شام میں داعش کو شکست تو ابھی ہوئی ہی نہیں۔
Published: undefined
ان تینوں یورپی طاقتوں نے سفارتی زبان میں یہ موقف ظاہر کیا ہے کہ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا۔
Published: undefined
اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعرات کے روز کہا، ’’صدر ٹرمپ کا یہ اچانک اعلان کہ شام میں داعش کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، امریکی موقف میں ایسا اچانک موڑ ہے، جس نے داعش کے خلاف جنگ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے یہ بات اس پس منظر میں بھی کہی کہ شام میں اس وقت جرمنی کے قریب بارہ سو فوجی اور غیر فوجی اہلکار تعینات ہیں، جو وہاں داعش کے خلاف جنگ میں لڑاکا طیاروں میں ایندھن بھرنے، فوجی تربیت اور نیول ٹریننگ میں حصہ لے رہے ہیں۔
Published: undefined
اسی طرح فرانسیسی خاتون وزیر دفاع فلورنس پارلی نے کہا کہ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو بہت کمزور تو کر دیا گیا ہے لیکن اس شدت پسند تنظیم کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پارلی نے کہا کہ شام میں اس دہشت گرد تنظیم کے عسکری طور پر زیر اثر چھوٹے چھوٹے باقی ماندہ علاقوں کا بازیاب کرایا جانا ابھی باقی ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف برطانیہ نے، جو داعش کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد میں امریکا کے ساتھ اشتراک عمل سے فضائی حملوں میں بھی حصہ لیتا رہا ہے، کہا ہے کہ یہ بات انتہائی حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ان خطرات کا کوئی غلط اندازہ نہ لگایا جائے جو داعش کی وجہ سے ابھی تک موجود ہیں۔
Published: undefined
جمعرات بیس دسمبر کی شام لندن میں برطانوی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’(داعش کے مکمل خاتمے کے حوالے سے) اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے اور ان جملہ خطرات کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، جو داعش کی وجہ سے ابھی تک بالکل موجود ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز