اس بحث کی ابتدا اس سوال سے ہوئی کہ کیا یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں، جہاں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ان کی مجموعی تعداد کئی ملین بنتی ہے، کبھی کوئی مسلمان سیاستدان بھی سی ڈی یو کا سربراہ اور پھر وفاقی چانسلر بن سکے گا؟
Published: undefined
اس بحث کا نقطہ آغاز میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کے پارلیمانی حزب کے سربراہ کا سر راہے دیا جانے والا یہ بیان تھا کہ مستقبل میں کوئی مسلمان مرد یا خاتون شہری بھی سی ڈی یو کا سربراہ بننے کے بعد سربراہ حکومت کے عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہ بات کہنے والے قدامت پسند سیاستدان رالف برِنک ہاؤس تھے۔
Published: undefined
ان سے جرمن میڈیا ادارے ’آئیڈیا‘ کی طرف سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا 2030ء میں کوئی مسلمان بھی اس پارٹی کا رہنما اور یوں شاید جرمن چانسلر بن سکتا ہے۔ اس پر رالف برِنک ہاؤس کا جواب تھا، ’’ہاں، کیوں نہیں! اگر وہ شہری ایک اچھا سیاستدان ہو، اور ہماری اقدار اور سیاسی نظریات کی نمائندگی بھی کرتا ہو، تو کیوں نہیں۔‘‘
Published: undefined
برِنک ہاؤس کا یہ انٹرویو فروری کے اواخر میں لیا گیا تھا، لیکن اس پر ایک بھرپور بحث کل چھ مارچ بدھ کے روز اس وقت شروع ہو گئی، جب کثیرالاشاعت جرمن روزنامے ’بلڈ‘ نے اس انٹرویو میں کہی گئی باتوں کو اپنی اشاعت میں جگہ دی۔
Published: undefined
اس کے بعد سی ڈی یو میں جیسے داخلی طور پر ایک لفظی جنگ شروع ہو گئی۔ ایک رکن پارلیمان نے کہا کہ وہ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی سیاستدان بالواسطہ طور پر بھی ایسی کوئی تجویز دے سکتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی کے شمال مشرقی صوبے میکلنبرگ بالائی پومیرانیا میں میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے علاقائی رہنما وِنسینٹ کوکرٹ نے اس بارے میں روزنامہ ’بلڈ‘ کو بتایا، ’’مجھےتو یقین ہی نہیں آ رہا کہ رالف برِنک ہاؤس نے یہ کہا ہے۔‘‘
Published: undefined
اسی طرح ملکی سطح پر سی ڈی یو کی مجلس عاملہ کی رکن الزبتھ موچمان نے بھی برِنک ہاؤس کے اس موقف سے اختلاف کیا کہ ایک مذہب کے طور پر اسلام کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی پارٹی اقدار سے ہم آہنگ ہے۔ موچمان نے کہا، ’’ہماری اور اسلامی اقدار میں بہت فرق ہے، مثال کے طور پر اگر صرف مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق ہی کی بات کی جائے تو بھی۔‘‘
Published: undefined
رالف برِنک ہاؤس نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا، ’’جب کسی سیاستدان کی قائدانہ صلاحیتوں سے متعلق کوئی پارٹی فیصلہ کیا جاتا ہے، تو کسی بھی انسان کے مذہب سے زیادہ اہم اس کی اقدار ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ برِنک ہاؤس نے یہ بھی کہا تھا، ’’سی ڈی یو کوئی مذہبی برادری نہیں ہے۔ اور یہی وہ بات ہے، جو ہمیں کیتھولک کلیسا سے مختلف بناتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
اس کے جواب میں برِنک ہاؤس پر تنقید کرنے والے چند پارٹی سیاستدانوں نے یہ دلیل دی کہ اس سیاسی جماعت کے تو نام پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس جماعت کے ایک رکن پارلیمان ایبرہارڈ گِینگر نے روزنامہ ’بلڈ‘ کو بتایا، ’’کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نام ہی میں، سی ڈی یو میں سے ’سی‘ کا مطلب کرسچین ہے۔ اس پارٹی کے نام کا یہ حصہ محض اتفاقاﹰ ہی طے نہیں ہوا تھا۔‘‘
Published: undefined
ایبرہارڈ گِینگر نے مزید کہا کہ چاہے وہ مرد یا خاتون کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیت ہو، لیکن جرمنی میں کوئی مسلمان کبھی چانسلر نہیں بن سکے گا۔ انہوں نے اس بات کے حق میں دلیل یہ دی کہ چانسلر کے مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ جرمن آبادی میں مسلمان اکثریت میں ہوں گے اور ایسا تو نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
انگیلا میرکل کی پارٹی کے کئی دیگر رہنماؤں نے اس بحث اور ان کے بقول ’توانائی کے ضیاع‘ کو ’قطعی بے عقلی‘ کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں فی زمانہ بحث بالکل ’جہالت‘ ہے۔
Published: undefined
لیکن اسی دوران شمالی جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن کی وزیر تعلیم کارِن پرِین نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتیں کہ جرمنی میں کسی پارٹی کا سربراہ یا چانسلر بننے کی اہلیت کے لیے مسیحی ہونا کیوں ضروری ہے؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined