پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے جن 13 طالبان کی سزائے موت پر دستخط کیے ہیں، انہیں فوجی عدالتوں نے مسلح افواج پر حملوں، اسکولوں کی تباہی اور معصوم شہریوں کے قتل کا مجرم ٹھہرایا تھا۔ اس بیان کے مطابق، ’’ان حملوں میں کُل 202 افراد ہلاک ہوئے جن میں 151 عام شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ان حملوں میں مسلح افواج کے 51 اہلکار، جبکہ 249 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔‘‘ جنرل باجوہ نے سات دیگر افراد کو جیل کی سزا کی بھی توثیق کی جنہیں فوجی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردی کے جرم میں یہ سزائیں سنائی گئی تھیں۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی فوج نے 16 اگست کو اعلان کیا تھا کہ 15 عسکریت پسندوں کی سزائے موت کی توثیق کر دی گئی ہے۔ فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت فوج کو سویلین کے خلاف مقدمات سننے کی اجازت ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST
پاکستان میں فوجی عدالتیں دسمبر 2014ء میں پشاور کے ایک اسکول میں حملے کے بعد قائم کی گئی تھیں۔ فوج کی نگرانی میں چلنے والے اس اسکول میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST
اس حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے سزائے موت دیے جانے پر موجود پابندی ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چین کو چھوڑ کر ایران، سعودی عرب، عراق اور پاکستان بالترتیب وہ چار ایسے سب سے زیادہ سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والے ممالک ہیں جہاں سال 2017ء کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی سزائے موت میں سے 84 فیصد پر عمل کیا گیا۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف 2004ء سے نبرد آزما ہے۔ حالیہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال میں کافی زیادہ بہتری آئی ہے۔ اپریل 2017ء میں پاکستانی پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے کام کرنے کی مدت میں مزید دو برس کی توسیع کر دی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے سزائے موت کی توثیق ہونے کے یہ نہیں بتایا گیا کہ مذکورہ مجرموں کو سنائی جانے والی اس سزا پر کب عملدرآمد ہو گا مگر ماضی میں ایسا 24 سے 48 گھنٹوں کے درمیان ہوتا رہا ہے۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Sep 2018, 10:54 AM IST