آج کی بظاہر جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا میں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جن کی تعداد متواتر اس لیے بڑھتی جا رہی ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں غربت، مسلح تنازعات اور طرح طرح کے خونریز بحران جدید غلامی کے ماحول کو ہوا دیتے ہی جا رہے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں، جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراﹰ جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔
Published: undefined
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت اور ان کے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے، جہاں جدید غلامی سے متاثرہ انسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
ان پریشان کن حالات نے اقوام متحدہ کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ جدید غلامی کی ان شکلوں کے خاتمے کے لیے باقاعدہ اقدامات کرے۔ اسی لیے اس عالمی ادارے نے تیس جولائی کو انسانوں کی تجارت کے خاتمے کی کوششوں کا عالمی دن قرار دے دیا۔ آج منائے جانے والے اس دن کا مقصد دنیا سے جبری مشقت اور جدید غلامی کے سن 2030ء تک خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت ان کے استحصال اور جدید غلامی کی جن شکلوں کے لیے کی جاتی ہے، ان میں جبری جسم فروشی، جبری مشقت، بھیک منگوانا، گھریلو ملازموں کے طور پر غلاموں کا سا برتاؤ، جبری شادیاں اور جسم کے مختلف اعضاء نکال لینا زیادہ بڑے مجرمانہ مقاصد ہیں۔
Published: undefined
۔ گزشتہ چند برسوں سے انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت کا منظر نامہ کافی بدل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سے زیادہ مرد اور بچے بھی اس جرم کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جن سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔
Published: undefined
۔ اس وقت دنیا بھر میں جدید غلامی کے شکار انسانوں کی تعداد 40 ملین یا چار کروڑ بنتی ہے۔ ان میں سے 25 ملین یا ڈھائی کروڑ سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے جبکہ 15 ملین یا ڈیڑھ کروڑ کی جبری شادیاں کرائی جا چکی ہیں۔
Published: undefined
۔ جدید دور کے غلام بنا لیے گئے ان کروڑوں انسانوں میں سے قریب تین چوتھائی خواتین یا لڑکیاں ہیں جبکہ ایسا ہر چوتھا انسان کوئی نہ کوئی نابالغ لڑکا یا لڑکی ہے۔
Published: undefined
۔ جدید غلامی کی سب سے زیادہ اور مروجہ شکلیں پہلے براعظم افریقہ کے مختلف ممالک اور ان کے بعد ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کے ممالک میں پائی جاتی ہیں۔
Published: undefined
۔ پوری دنیا میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ شمالی کوریا ہے، جہاں ایسے انسانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا قریب 10 فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد 9.3 فیصد کے ساتھ اریٹریا اور چار فیصد کے ساتھ برونڈی کا نام آتا ہے۔
Published: undefined
۔ پاکستان میں 1.7 فیصد یا قریب 3.2 ملین شہری جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایران میں یہ شرح 1.6 فیصد بنتی ہے۔
Published: undefined
۔ دنیا بھر میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھارت ہے۔ جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں ایسے انسانوں کی تعداد آٹھ ملین یا 80 لاکھ بنتی ہے۔
Published: undefined
۔ انسانوں کی اسمگلنگ عالمی سطح پر ایک ایسا گھناؤنا کاروبار ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلروں کے جرائم پیشہ گروہوں اور ایسے انسانوں سے غلاموں کی طرح مشقت لینے والوں کو سالانہ قریب 150 ارب ڈالر کی ناجائز آمدنی ہوتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز