ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مشہور بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے بھارت میں حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کووڈ انیس کی وبا سے پیدا ہونے والے بحران کے تناظر میں مسلم آبادی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے موجودہ بھارتی حکومتی رویے کو نازی دور کے طرز کا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال بھارت میں نسل کشی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
Published: undefined
رائے کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی وبا نے بہت سے ڈھکے چھپے سنگین معاملات کو بھی عیاں کر دیا ہے اور وبا کے ساتھ ساتھ نفرت اور بھوک کے بحرانوں کو بھی بھارتی عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ انٹرویو میں نفرت کے بحران کا اشارہ مسلمان آبادی کا جانب ہے، جس کو ایک دو ماہ قبل بھارتی دارالحکومت میں شہریت بل کی مخالفت میں شروع ہونے والے مذہبی فسادات کے دوران قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
Published: undefined
اروندھتی رائے کے انٹرویو کے مندرجات پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے حامیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نلن کوہلی نے اروندھتی رائے کے خیالات کو پوری طرح مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر نسل پرستانہ، من گھڑت، غلط اور گمراہ کن ہیں۔ کوہلی کے مطابق یہ خیالات عوام کے سرکش بنانے کے زمرے میں آتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بعض سیاسی ماہرین کا مشترکہ بیانیہ تھا کہ موجودہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت دانستہ طور پر گروہی تناؤ کو نسلی کشی کی جانب لے کر جا رہی ہے۔ نئی دہلی کے انسٹیٹیوٹ برائے اکنامک گروتھ کے ماہر سماجیات سنجے سری واستو کا کہنا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت میں مسلم آبادی کو رسوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
Published: undefined
اس مناسبت سے نئی دہلی میں مقیم ایک اور ادیب نیلانجن مکھو پدائے کہتے ہیں کہ یہ قبل از وقت ہے کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں کو نازی جرمنی کے یہودیوں جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ مکھو پدائے ایک کتاب ' نریندر مودی: ایک انسان۔ ایک وقت‘ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ سن 1947 سے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی تاریخ موجود ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک وُوڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کُوگلمین کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اروندھتی رائے کا بیان کسی حد تک اشتعال انگیزانہ ہے اور سب انہیں ان کے ایسے نظریات کی وجہ سے جانتے ہیں۔ کوگلمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ انیس کے حوالے سے بھارتی حکومت کا ردعمل ایک نامناسب اور زہریلے سماجی ماحول کے جواب میں ہے۔ امریکی تھنک ٹینک کے مبصر کے مطابق بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں کے مسلم مخالف بیانات پر نریندر مودی کی خاموشی نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو تقویت دی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہیلتھ سیکٹر کے کمزور ہونے کے خوف کے ساتھ ساتھ مذہبی عدم اعتماد نے بھی معاشرتی امتیازی رویوں کو تقویت دی ہے۔ سارے بھارت میں ایسی رپورٹنگ کی گئی کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے ذمہ دار مسلمانوں کی مذہبی تحریک تبلیغی جماعت کے کارکن ہیں۔
Published: undefined
بھارتی حکام نے اس جماعت کے کثیر اراکین میں وائرس کی تشخیص کی تھی۔ اس باعث تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مسلمانوں کے خلاف من گھڑت معلومات اور غلط خبروں کے پھیلاؤ میں تسلسل ہے۔ بھارتی ادیب نیلانجن مکھو پدائے کا کہنا ہے کہ ایسا بتایا جاتا ہے کہ مسلمان ایک بیماری ہیں اور موجودہ صحت کے خطرناک بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اپریل کے شروع میں بھارتی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ کووڈ انیس کی وبا کے حوالے سے چند گروہوں اور عقیدوں کے حامل گروپوں کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ حکومت نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ ایسی گمراہ کن خبریں سوشل میڈیا پر شائع کرنے سے اجتناب کریں۔
Published: undefined
یہ امر اہم ہے کہ ہپبلک ہیلتھ حکام نے واضح کیا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنانا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران مسلمانوں اور ہندوؤں میں اتحاد و اتفاق وقت کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں گروہوں کے بیچ ہم آہنگی اور بھائی چارے میں اضافہ ہو گا۔ مائیکل کُوگلمین کا خیال ہے کے ایسا ہونا خام خیالی ہے کیونکہ بی جے پی کا ایجنڈا مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنا نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined