وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی چینی اور آٹا بحران سے متعلق رپورٹ کے بعد وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پیچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جب کہ پی ٹی آئی کےاہم مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور شہباز گل میں 'لفظی جنگ‘ بھی چھڑ گئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار سے ان کا قلمدان واپس لے کر سید فخر امام کو دے دیا گیا ہے جبکہ اقتصادی امور کا قلمدان اب خسرو بختیار کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
Published: undefined
حماد اظہرکو وزارت صنعت و پیداوار دے دی گئی ہے، اس سے قبل وہ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور تھے۔ امکان ہے کہ آنے والے ہفتوں میں مزید تبدیلیاں بھی لائی جا سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین اور اتحادی جماعتوں کے گلے شکووں میں بھی شدت آ سکتی ہے۔
Published: undefined
یہ سیاسی ہلچل اس رپورٹ کے آنے کے بعد پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے ملک کے کئی حلقوں میں سول ملٹری تعلقات اور سیاسی عدم استحکام سمیت کئی اہم موضوعات پر بحث پہلے ہی چھڑ چکی تھی۔ اس ہلچل سے اب ملک میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان بہت بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں اور اس مشکل کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ابھی صرف کابینہ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن رپورٹ میں نام آنے والے افراد کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور پی ایم ایل ق کے رہنما مونس الہی نے حکومت کی طرف سے چینی پر دی گئی سبسڈی سے فائدہ اٹھایا۔ رپورٹ میں ن لیگ اور دیگر پارٹیوں سے وابستہ افراد کے بھی نام ہیں لیکن کرپشن کے خلاف لڑنے والے عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے نام منظر عام پر آنے سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے کئی مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔
Published: undefined
نون لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی اس رپورٹ میں عمران خان کے قریبی لوگوں کے نام منظر عام پر آنے سے کرپشن کے خلاف لڑنے والے چیمپئین کے لئے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں، ''پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں عددی برتری جہانگیر ترین، مونس الہی اور خسرو بختیار جیسے لوگوں کی وجہ سے ہے۔ کئی اراکین قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین جہانگیر ترین کے قریب ہیں۔ خسرو کے ساتھ بھی کچھ ارکان ہیں جب کہ مونس الہی اہم اتحادی ہے۔ اگر عمران خان نے ان افراد کے خلاف ایکشن لیا تو اس کی اکثریت ختم ہو جائے گی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔‘‘
Published: undefined
پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اب اگر عمران خان نے ان افراد کے خلاف ایکشن نہ لیا تو پھر لوگ اسے چور اور لٹیروں کا ساتھی قرار دیں گے، ''تو خان صاحب بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ ایکشن لیتے ہیں تو اکثریت جاتی اور نہیں لیتے تو پی ٹی آئی کا کرپشن مخالف بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔‘‘
Published: undefined
سابق وفاقی وزیر اور سینیڑ حاصل بزنجو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، ''میرا خیال ہے کہ فوری طور پر تو اس رپورٹ سے عمران خان کی حکومت کو خطرہ نہیں ہو گا گو کہ مشکلات ضرور پیدا ہوں گی کیونکہ ملک چلانے والے کورونا کے بحران کے پیش نظر کوئی عدم استحکام نہیں چاہیں گے لیکن کورونا کے بحران کے بعد سیاسی بحران آ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خان مدت پوری نہ کر سکے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ سول و ملٹری تعلقات میں اتنی گرم جوشی نہیں رہی جتنی کہ حکومت کی تشکیل کے وقت موجود تھی۔ حاصل بزنجوکا بھی یہی خیال ہے کہ جی ایچ کیو اور بنی گالہ میں دوستی اب اتنی پکی نہیں جتنی پہلے تھی، ''اس رپورٹ کا آ جانا اتنا معمولی نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ واجد ضیاء کس کا آدمی تھا اور ہے۔ پانامہ انکوائری میں اسے دس والیومز کس نے دلوائے تھے اور موجودہ انکوائری میں بھی واجد ضیاء نے جو پھرتی دکھائی ہے، وہ اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی ہے۔ تو لگتا ہے لانے والے خوش نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
معروف سیاسی تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں طاقت ور حلقوں کو شاید یہ محسوس ہو رہا تھا کہ عمران کے قریبی ساتھی اسے محمد خان جونیجو بنانا چاہ رہے تھے، ''شاید اسی وجہ سے ان ساتھیوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور رپورٹ کو منظر عام پر اس طرح لایا گیا ہے کہ عمران کو بھی بظاہر بہت زیادہ ناراض نہ کیا جائے بلکہ اسے ایسے افراد کے حلقے سے نکالنے کی کوشش کی ہے، جو اس پر اثر انداز ہو رہے تھے اور ممکنہ طور پر اس سے محمد خان جونیجو جیسا کوئی کام کروانا چاہ رہے تھے۔‘‘
Published: undefined
تاہم حکومت کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے آنے سے عمران خان کی اخلاقی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ معروف تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں، ''ابھی تو فوج نے انہیں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنا کر دیا ہے اور کورونا کے مسئلے پر بھی فوج حکومت کے ساتھ ہے۔ میرے خیال میں دباو عمران خان کے سیاسی دوستوں کی طرف سے تھا، جو نہیں چاہ رہے تھے کہ یہ رپورٹ منظر عام پر آئے لیکن عمران خان نے ان کے دباو کو مسترد کر کے اخلاقی برتری حاصل کی ہے، جس کا اس کو سیاسی فائدہ ہوگا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز