مغربی اتر پردیش میں گزشتہ ایک سال سے 2 ہزار سے زیادہ دلت نوجوان اپنے طبقہ کے غریب بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ بی سی اے کر چکے گورو بھارتی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ملازمت چھوڑ کر آئے ہیں۔ وہ دلت سماج میں تعلیم کے تئیں بیداری پھیلا رہے ہیں اور اپنے کمپیوٹر کے علم سے انھیں روشناس کر رہے ہیں۔ وہ اسے بھیم پاٹھ شالہ کے کام کا ایک حصہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’تعلیم تقدیر بدلتی ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔‘‘ 28 سال کے گورو بھارتی کہتے ہیں ’’امبیڈکر صاحب نے تعلیم کا مطلب اچھی طرح سمجھا دیا اس لیے ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ان کو پڑھا رہے ہیں۔‘‘
بھیم آرمی سے منسلک 26 سال کے استاد سنّی گوتم بتاتے ہیں ’’یہ پاٹھ شالائیں ایک طرح کی ایکسٹرا کلاسز ہیں۔ اس میں ہم وہی پڑھاتے ہیں جو اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اسے ایک طرح سے ’ریویزن وَرک‘ کہہ سکتے ہیں۔ ہم قابلیت کو چمکا رہے ہیں۔ اس میں دلت بچے ہی آتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر دلتوں کی فیملی میں پڑھے لکھے گھر والے نہیں ہیں، اس لیے ان بچوں کو گھر سے مناسب سہولت نہیں مل پا رہی ہے۔ ہم ان کی فیملی کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
مظفر نگر کے مکلم پورا گاؤں میں ایسی ہی ایک پاٹھ شالہ چلانے والے امبیڈکر یوا منچ کے صدر سریندر کمار نے ایم اے اور بی ایڈ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’’ہم اپنی قابلیت اور تجربے کا استعمال اپنے سماج کے بچوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ اسکولوں میں پڑھائی کی سطح سب کو معلوم ہے، اس لیے ہم نے انھیں نجی طور پر پڑھانا شروع کیا ہے۔ یہ بچے مہنگی ٹیوشن فیس نہیں دے سکتے۔ ہم ان کا متبادل لے کر آئے ہیں۔ اسی طرح کی ایک پاٹھ شالہ 31 کے منوج گوتم بھی چلاتے ہیں۔ پہلے وہ تقریباً 50 بچوں کو میرا نپور کے امبیڈکر استھل پر پڑھاتے تھے۔ منوج ایک مقامی کالج میں ریاضی اور سائنس کے استاد ہیں۔ اب وہ ان بچوں کو گھر گھر جا کر پڑھا رہے ہیں۔ منوج گوتم نے مظفر نگر میں سب سے پہلے اس طرح کی پاٹھ شالہ شروع کی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’لوگ ہمیں للکارتے ہیں کہ ہم اپنی قابلیت ثابت کریں۔ ہم انھیں قابلیت سے ہی جواب دیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو اتنا قابل بنانا چاہتے ہیں کہ مخالفین کہیں کھڑے نہ ہو سکیں۔‘‘
دھیرے دھیرے تقریباً ہر دلت اکثریتی گاؤں میں اس طرح کی پاٹھ شالائیں کھولی جا رہی ہیں۔ تنہا مغربی اتر پردیش میں یہ تعداد ایک ہزار کو عبور کر چکی ہے۔ بھیم آرمی کے سہارنپور ضلع صدر کمل والیا بتاتے ہیں کہ اس مہم کو بھیم آرمی کے سپریمو چندر شیکھر بھائی نے شروع کیا تھا۔ آر ایس ایس کے اسکولوں کو انہیں کی زبان میں جواب دینے کے لیے بھیم آرمی پاٹھ شالائیں شروع کی گئی تھیں۔ عام اسکولوں میں دلت بچوں کے ساتھ تفریق ہوتی ہے۔ انھیں اور مسلمانوں کے بچوں کو پیچھے بٹھایا جاتا ہے جب کہ اعلیٰ ذاتوں کے بچے آگے بیٹھتے ہیں۔ کتابوں میں دلت ہستیوں کی داستانوں کو نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ ان اسکولوں میں دلتوں کو بچپن سے دبایا جاتا ہے جس سے وہ پھر کبھی آگے نہیں نکل پاتے۔ بھیم آرمی کو لگا کہ اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے اپنی پاٹھ شالائیں قائم کرنی چاہئیں۔ جس مقام پر روی داس آشرم اور امبیڈکر استھان ہے وہاں اسکول سے آنے کے بعد بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور جہاں دلت سماجک استھان ہے وہاں دلت سماج کے پڑھے لکھے نوجوان انھیں اپنے گھر پر پڑھا رہے ہیں۔
تنہا سہارنپور میں ایسی 100 سے زائد پاٹھ شالائیں ہیں۔ صرف دلت نوجوان ہی نہیں سبکدوش اساتذہ بھی اس مہم سے جڑ گئے ہیں۔ دیاچند بھارتی کہتے ہیں ’’غلط جانکاری برے زہر کی طرح ہے۔ ہمیں صحیح بات جاننے کا حق ہے اور اپنے علم کی توسیع کرنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔ سماج بہت پسماندہ ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے۔ صحیح علم بانٹنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
Published: undefined
چرتھاول کے بھوپ سنگھ بودھ پولیو سے متاثر ہیں اور پاٹھا شالہ چلا رہے ہیں۔ ان کے یہاں 80 بچے پڑھتے ہیں۔ یہ سبھی دلت ہیں۔ بھوپ سنگھ کہتے ہیں ’’کسی بھی بھیم پاٹھ شالہ میں کسی بھی بچے سے پڑھنے کا کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا۔ ہم اپنے بچوں کو اپنے فخریہ ماضی کے بارے میں بتاتے ہیں جسے اعلیٰ ذات کے لوگوں نے چھپا کر رکھا ہے۔ اسکولوں میں دلت بچوں کے ساتھ تفریق ہوتی ہے۔ اب ہم ’اپنی کتاب، اپنا اسکول‘ کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ بھیم آرمی کے قومی ترجمان منجیت کوٹیال کہتے ہیں ’’بھیم آرمی کی تشکیل ہونے کی کہانی بھی اسکول میں ہوئی تفریق سے ہی شروع ہوئی تھی۔ چندر شیکھر بھائی نے چھٹمل پور کے کالج میں دلتوں کے لیے الگ پانی اور الگ سیٹ کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی۔‘‘
مگر بات صرف اتنی نہیں ہے۔ بھیم پاٹھ شالہ کے لیے باقاعدہ ’جن جاگرن ابھیان‘ (عوامی بیداری مہم) چلائی جارہی ہے اور دلت محلوں میں ان کا استقبال ہوتا ہے۔ دلت نوجوانوں کو اپنے پڑوس میں پڑھانے کے لیے ترغیب دی جاتی ہے۔ شیر گڑھی کے وِکاس گوتم کہتے ہیں ’’ہم سماج میں صد فیصد تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کوئی اَن پڑھ نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ گزشتہ مہینے سہارنپور میں ایک بھیم پاٹھ شالہ پربجلی گر گئی تو دو اساتذہ کلدیپ اور بٹو کی موت ہو گئی۔ وِکاس گوتم کہتے ہیں ’’وہ سماج کے شہید ہیں۔ ان میں سے ایک مہلوک کا بھائی ویپن بھی اب اپنے بھائی کی جگہ پڑھاتا ہے۔ وہ دونوں ہمارے رول ماڈل ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز