ایک طرف بی جے پی لیڈران ملک میں ’رام راج‘ لانے کی بات کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ان کے ہی ممبر اسمبلی نے یہ بیان دیا ہے کہ ’’میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بھگوان رام بھی آ جائیں تو وہ بھی عصمت دری کے واقعات کو روک نہیں پائیں گے۔‘‘ یہ بیان ہے بلیا واقع بیریا کے بی جے پی ممبر اسمبلی سریندر سنگھ کا۔ انھوں نے اُناؤ میں عصمت دری کے تازہ واقعہ اور اتر پردیش میں لگاتار اس طرح کے بڑھتے واقعات پر میڈیا کے ذریعہ پوچھے گئے سوال پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بیان دیا۔ اس بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں اگر ’رام راج‘ بھی آ گیا تو عصمت دری کے واقعات یونہی ہوتے رہیں گے۔
Published: undefined
سریندر سنگھ پہلے بھی کئی مرتبہ متنازعہ بیان دیتے رہے ہیں اور آج جب میڈیا نے ان سے عصمت دری کے بڑھتے واقعات پر سوال کیا تو انھوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ عصمت دری کے معاملے بڑھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بڑھا کر دکھانا میڈیا کا کام ہے، حقیقت کا پتہ پولس کی رپورٹ سے چلے گا۔ وِکاس بھون میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’قتل کرنے والوں کا پولس انکاؤنٹر کر رہی ہے لیکن جسم لوٹنے والوں کا انکاؤنٹر نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں جیل میں بند کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’سبھی سرپرستوں، بہنوں اور بھائیوں کو چاہیے کہ وہ سماج کے لوگوں کو اپنی فیملی سمجھیں اور مذہب پر عمل کریں۔ اس پر اچھے اخلاق سے قابو پایا جا سکتا ہے، آئین سے نہیں۔‘‘
Published: undefined
بی جے پی ممبر اسمبلی نے اپنے بیان میں یہ بھی واضح لفظوں میں کہا کہ ’’عصمت دری کے واقعات جو ہو رہے ہیں اس پر قابو پانا ممکن نہیں۔ یہ سماج کی فطری گندگی ہے۔ فطری گندگی سے کوئی بچنے والا نہیں ہے۔‘‘ سریندر سنگھ کے اس متنازعہ بیان سے لوگ حیران ہیں۔ لیکن وہ پہلے بھی ایسے حیران کرنے والے متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔ کبھی انھوں نے طوائف کو سرکاری افسروں سے بہتر بتا کر ہنگامہ برپا کیا تو کبھی لوک سبھا انتخابات 2019 کو ’بھگوان‘ بنام ’اسلام‘ قرار دے ڈالا، حتیٰ کہ انھوں نے این ڈی اے کی دوست پارٹی ’سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی‘ (ایس بی ایس پی) کے قومی صدر اوم پرکاش راجبھر کے خلاف بھی قابل اعتراض بیان دے دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined