ڈی ڈبلیو کے پاس موجود حکومتی کاغذات کے مطابق وفاقی حکومت کا دو سو بلین روپے سے زیادہ کا انفراسٹرچکر ڈیویلپمنٹ سیس (GIDC) کھاد اور توانائی کے علاوہ کئی دوسری کمپنیوں کے پاس برسوں سے پڑا ہوا ہے، جو کئی ماہرین کے خیال میں ان سرمایہ داروں نے عوام سے وصول کیا ہے اور جس پر صرف سود ہی کی مد میں اربوں روپیہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے یہ تجویز دی ہے کہ کمپیناں اس میں سے آدھا پیسہ حکومت کو واپس کر دیں اور آدھا رکھ لیں۔ حکومت کا مطالبہ ہے کہ کمپنیاں مختلف عدالتوں میں اس لیوی سے متعلق درخواستوں کو بھی واپس لیں تاکہ عدالت کے باہر اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور پیسہ ملکی معیشت کے لیے خرچ کیا جائے۔ تاہم ناقدین اس فیصلے کو سرمایہ داروں کو خوش کرنے کی ایک پالیسی قرار دے رہے ہیں۔
Published: undefined
سیاسی جماعتیں اس حکومتی فیصلے پر چراغ پا ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اتنی خطیر رقم عوامی مفادات کے منصوبے پر خرچ کی جانا چاہیے: ''ایک سال سے بلوچستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ مہنگائی آسمانوں سے بات کر رہی ہے۔ سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب آدمی غربت کی وجہ سے خود کشیاں کر رہا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ عمران سے سارے عوام دشمن فیصلے کرا رہی ہے، جو اس کے حلق میں اٹکیں گے۔ پہلے اسٹاک ایکسچینجز کے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا اور اب اپنے منظور نظر کاروباری افراد کو نوازا۔ ہم اس مسئلے کو سینیٹ میں اٹھائیں گے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ اس حکومت نے پنجاب میں سوشل سیکٹر فنڈز میں تقریباﹰ پچاس فیصد کمی کی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی ترقیاتی اسکیمیوں میں بھی زبردست کٹوتی کی گئی ہے، جس سے بلوچستا ن اور ملک کے پسماندہ علاقے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ سو ارب روپے سے زیادہ کی چھوٹ پورے بلوچستان کے بجٹ کے پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
Published: undefined
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے عمران خان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ یہاں تک کے پارٹی کے رہنما بھی اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی: ''کسان غربت کی وجہ سے پریشان ہے۔ یہ پیسہ کسانوں اور صارفین کا ہے، جو یہ کمپنیاں دبا کر بیٹھی ہیں۔ میں نے پارٹی کو تجویز دی تھی کہ وہ عدالت عالیہ سے درخواست کرے کہ اس محصول کے خلاف تیس سے زیادہ جو درخواستیں ہیں، ان کو ایک جگہ یکجا کر کے عدالتیں اس پر فوری فیصلہ دیں۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فیصلوں سے پارٹی بدنام ہوگی اور لوگ تبدیلی کے نعرے کا مذاق اڑائیں گے۔
Published: undefined
پاکستان میں خوراک کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کے پچاس فیصد گھرانے دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتے۔ جب کہ ملک میں 44 فیصد سے زائد بچے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہر جیسا کہ کراچی میں ایک سو بلین روپے میں تعلیم، صحت، سینیٹیشن کو بہت بہتر کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
ناقدین کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب اس طرح کے ٹیکس کا پیسہ عوامی مفاد پر لگایا جانا چاہیے، حکومت سرمایہ داروں کو نواز رہی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں یہ فیصلہ حکومتی دعووں پر ایک طمانچہ ہے: ''اس فیصلے سے فائدہ عمران کے قریبی لوگوں کو ہوگا۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ کرنا تھا تو اس کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھنا چاہیے تھا تاکہ اس پر بحث ہو سکے۔ اس فیصلے سے عمران کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔‘‘
Published: undefined
تاہم معیشیت پر گہری نظر رکھنے والے اس فیصلے کو منطقی قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے مسائل میں گھری معیشت کو تھوڑا بہت ریلیف ملے گا۔ معروف تجزیہ نگار ضیا الدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر شور وہ مچا رہے ہیں، جن کو معاشی معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں ہے: ''تما م حکومتیں اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں۔ اگر اس پیسے کا آدھا بھی حکومت کو مل جاتا ہے تو بہتر ہے۔ مقدمات سات سے آٹھ سال تک چل سکتے ہیں اور اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ فیصلہ حکومت کے حق میں ہی آئے۔ لہٰذا آؤٹ آف کورٹ معاملہ حل کرنا معاشی حوالے سے منطقی ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس کا نفاذ بھی مناسب نہیں تھا: ''جب یہ ٹیکس لگایا گیا تو اس وقت حفیظ پاشا اور دوسرے ماہرین نے اس کی مخالفت کی تھی۔ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیویلپمنٹ حکومت کا کام ہے، تو وہ اس کے لیے پیسے کیوں دیں؟‘‘
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined