’جینیوا کنوینشن‘ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس بین الاقوامی ہیومنٹیریئن قانون کا مقصد جنگی صورتحال میں انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک یقینی بنانا ہے۔ تاہم بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یہ عالمی سمجھوتہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور روسی فورسز شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی میں دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو جینیوا معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
روتھ کے مطابق یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں سعودی فوجی اتحاد شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس لڑائی میں یمنی صدر منصور ہادی کی حامی ان افواج نے مساجد، بازاروں اور حتیٰ کہ اسکولوں اور اسپتالوں پر بھی بمباری کی ہے۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
اسی طرح میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’فوجی کریک ڈاؤن‘ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی سخت تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے تو یہاں تک بھی کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ’نسل کُشی‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
ان تمام تنازعات میں جن انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، وہ تمام جینیوا کینوینشن میں شامل ہیں۔ ریڈ کراس سے وابستہ سابق وکیل ہیلن ڈیرہم اتفاق کرتی ہیں کہ ان کے ادارے نے جینیوا کنوینشن کے شقوں کو کئی مرتبہ اور مسلسل پامال ہوتے دیکھا ہے، جو کسی طور قابل قبول نہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
ہیلن ڈیرہم کے مطابق ’اگر ان قوانین کو توڑا جا رہا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ قوانین برمحل اور حسب موقع نہیں رہے‘۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے کیس ہیں، جن میں انہی قوانین کی وجہ سے جنگوں کے دوران انسانی عزت اور وقار کا تحفظ ممکن بنایا گیا۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
جینیوا کنوینشن پر ابتدائی کام سن اٹھارہ سو چونسٹھ میں ہوا۔ اس وقت اس کی توجہ کا مرکز جنگوں میں زخمی ہونے والے فوجیوں کے علاج معالجے اور ان کا خیال رکھنا تھا۔ ان دنوں ریڈ کراس کے بانی ہینری ڈونناٹ نے اس مجوزہ سجھوتے کا خاکہ تیار کیا۔ آنے والی دہائیوں میں مزید جنگیں ہوئیں اور اس معاہدے میں جنگی جرائم کے حولے سے مزید شقیں شامل کی جاتی رہیں۔ بلآخرطویل عالمی مذاکرات کے بعد جینیوا کنوینشن بارہ اگست سن انیس سو انچاس میں طے پا گیا۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
اس کنوینشن میں ایسے چار بین الاقوامی معاہدے شامل ہیں، جن کے تحت یہ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جنگ کے دوران ایسے لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے جو خود لڑائی میں ملوث نہ ہوں۔ ان میں شہری، طبی عملہ، جنگی قیدی اور ایسے سپاہی بھی شامل ہیں، جو لڑنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
آج 196 ممالک اس کنوینشن کی توثیق کر چکے ہیں، جن میں پاکستان اور ہندوستان بھی شامل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اس معاہدے کا مبصر رکن ہے۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
شام کی خانہ جنگی، یمن کا تنازعہ اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے موضوعات ایسے ہیں، جن کے باعث اس بین لااقوامی معاہدے کے فعال ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کئی ناقدین کے مطابق دراصل ان قوانین کو مناسب طریقے سے نافذ نہ کر سکنے کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
دوسری طرف دیکھا جائے تو دنیا کے کئی ایسے خطے ہیں، جہاں ان قوانین کا مؤثر انداز میں نفاذ ہوا اور وہاں تنازعات میں انسانی وقار کو یقینی بنایا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ سے منسلک روتھ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان قوانین کی بنیاد کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا، ’’کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ شہریوں کو نشانہ بنانا یا بلاتخصیص فائر کرنا درست ہے۔ یہ بنیادی اقدار کا معاملہ ہے۔‘‘
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
روتھ کے مطابق اس معاہدے کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے زیادہ سیاسی عزم درکار تاکہ تنازعات میں شریک تمام فریقین یہ بات یقینی بنائیں کہ ان قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 6:03 AM IST