لکھنؤ: اتر پردیش کی یوگی سرکار مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے کوئی حربہ استعمال کرنے سے باز نہیں آنا چاہتی۔ ریاستی کام کاج میں سب سے زیادہ ترجیح مسلمانوں کے معاملات کو دی جا رہی لیکن اس کا رخ مثبت نہیں منفی ہے۔ پوری سرکار گائے، گو موتر، مندر اور ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور سرکاری صفوں میں جو کام تیزی سے انجام دیا جا رہا ہے ان کا مقصد مسلمانوں اور ان کے اداروں پر نظر رکھنا ہے۔یوم آزادی کے موقع پر جس طرح سے یوگی سرکار نے یکطرفہ اقدام کر کے صرف مدارس میں پرچم کشائی کی ویڈیو گرافی کرنے اور قومی گیت گانے کو ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا اس سے مسلم طبقہ میں نہ صرف تشویش پیدا ہوئی تھی بلکہ انتہائی غم و غصہ تھا۔ اب ایک نیا فرمان آیا ہے جس کے تحت اتر پردیش کی حکومت ریاست کے مدرسوں پر جوابدہی اور شفافیت کے نام پر نظر رکھنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اتر پردیش ایڈمنسٹریشن کی پرنسپل سکریٹری مونیکا گرگ نے مدارس کےتعلق سے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ مدارس میں جعلی طالب علموں اور ملازمین پر نظر رکھنے کے لئے مدرسوں کو سرکاری پورٹل پر کلاس روم کے نقشے، عمارتوں کی تعمیر اور اساتذہ کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل ڈالنی ہوگی ‘‘۔ اس پورٹل پر ملازمین کو پین کارڈ اور آدھار کارڈ کی تفصیلات بھی اپ لوڈ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
سرکار نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ پاٹھ شالاؤں اور آر ایس ایس کے ششو مندروں میں بھی کیا اسی نوعیت کا کوئی انتظام کیا جا رہا ہے؟ اس پر شاہی جامع مسجد ، فتحپوری ، دہلی کے امام مفتی مکرم نے کہا ہے کہ ’’یہ بہت افسوس کا پہلو ہے اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اوریہ سب کچھ عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ، فرقہ پرست قووتوں کو خوش کرنے کے لئے ، اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لئے اور 2019 لوک سبھا چناؤ کی تیاری کے لئے کیا جا رہا ہے۔‘‘ مفتی مکرم نے مزید کہا کہ ’’ان سارے مسائل پر وزیر اعظم سے بات کرنی چاہئے اور نریندر مودی سے خاص طور پر وہ لوگ ملیں جو پہلے ان سے ملتے رہے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ مسلمانوں کو حراساں کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔حکومت کی کوشش ہے کہ یا تو مدارس کی تعداد کم ہو جائے یا مدارس بند کر دیے جائیں۔ پہلے حکومت نے مدارس کے تعلق سے ایک سروے کرایا تھا اور اس سروے میں مدارس کو ہر طرح کی کلین چٹ دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ مدارس کسی بھی قسم کی ملک مخالف سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں ۔ سکھوں، دلتوں، عیسائیوں کے تعلیمی اداروں کو ویسے ہی چلتے رہنے دینا چاہئے جیسے وہ چلتے آ رہے ہیں ۔ نئے طرح کے نظام کو لاگو کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے‘‘۔
مفتی مکرم نے مسلم تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’’مسلم تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ ہمارے بڑے نمائندہ ادارے جن کا دفتر لکھنؤ میں ہے وہ خاموش بیٹھے ہیں‘‘۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور مورخ شمس الاسلام کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’مدارس کے لئے علیحدہ سے ایسا فرمان جاری کرنا اور وہ بھی اس وقت جب رازداری کے تعلق سے سپریم کورٹ نے ایک بڑا تاریخی فیصلہ دیا ہے، یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ ایسے ماحول میں محض مدارس ہی کیوں؟ ویسے تو کسی کے ساتھ بھی ایسا کرنا غلط ہے لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ مدارس ہی کیوں؟ اتر پردیش میں بیسک ایجو کیشن کے سربراہ سنہا نے اس قبل یوم آزادی پر مدارس کے ویڈیو والے حکم نامہ پر کہا تھاکہ ہم پرائمری اسکولوں میں اس لئے نہیں کرا رہے کیونکہ وہ تو ہمارے لوگ ہیں یعنی ہندو ہیں ان سے کیا ثبوت مانگنا ۔ اس ذہنیت کے ساتھ جب کام ہوگا تو پھر ایسے سرکلر پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ یو پی حکومت نے مدرسہ کونسل کے رجسٹرار کو ہدایت دی ہے کہ 16،000 مدارس کی جیو ٹیگنگ ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ایک کوڈ مدرسوں کو دیا جائے گا۔ پرنسپل سکریٹری منیکا گرگ کے ذریعہ جاری کردہ ایک فرمان میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے سبھی مدارس حکومت کی نئی ویب سائٹ madarsaboard.upsdc.gov.in پر 15 اکتو برتک پر درج ہوجانا چاہیے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان چیزوں کو ترقی کے مراحل میں شمار کیا گیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ "یہ پورٹل شروع کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں ترقی ہو، مقابلہ آسان بنا جائے اور حالات کو بہترکیا جائے‘‘۔ سرکاری فرمان کے مطابق، اس سے جعلی طالب علموں اور اساتذہ کی شناخت ہو سکے گی۔ مدرسوں کے ملازمین کے بینک اکاؤنٹس بھی چیک کئے جانے کا حکم ہے۔ کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹس کی جانچ کے بعد اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہ ادا کی جائیں گی۔ پورٹل پر مدرسوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات ضلع اقلیتی افسر کرے گا اور اس کے بعد کسی بھی ڈیٹا کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
Published: 30 Aug 2017, 2:47 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Aug 2017, 2:47 PM IST
تصویر: پریس ریلیز
تصویر سوشل میڈیا