صرف اتر پردیش ہی نہیں پورے ملک کو فرقہ پرستی کے جہنم میں جھونکنے کی بہت ہی گہری اور خطرناک سازش بلندشہر کی پولس خاص کر سیانہ تھانہ کے انسپکٹر سوربھ سنگھ نے اپنی جان دے کر ناکام کر دی، دار اصل مودی جی کی گرتی مقبولیت اور آئندہ پارلیمانی انتخاب میں یقینی شکست دیکھتے ہوئے سنگھ پریوار کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں، ان کے پاس اپنی حکومت کا کوئی کارنامہ دکھا کر عوام سے ووٹ مانگنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، لے دے کر فروعی مسائل پر ہندو عوام کا ذہنی استحصال کر کے ہی وہ اپنی نیا پار لگانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس میں بھی انھیں ناکامی مل رہی ہے۔
ایودھیا کی دھرم سنسد کو جس طرح مقامی اور بیرونی ہندوؤں نے ناکام کیا اس سے سنگھ پریوار کی تشویش اور بڑھ گی ہے لے دے کر ان کے پاس اپنا آزمودہ نسخہ صرف فساد ہی بچا ہے، بلند شہر میں وہ یہی نسخہ اپنانا چاہتے تھے لیکن مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور انسپکٹر سوربھ سنگھ نے عظیم الشان قربانی پیش کر کے امن کی عبارت رقم کر دی۔
بلند شہر کے اجتماع میں ایک اندازہ کے مطابق 5 سے 7 لاکھ لوگ شریک ہوئے اس اجتماع کی تیاریاں گزشتہ دو برسوں سے چل رہی تھیں، مقامی ہندوؤں نے اس میں ہر طرح سے تعاون دیا یہاں تک کہ مندر کے صحن کو نماز کے لئے کھول دیا، ظاہر ہے یہ صورت حال سنگھ کو کیسے برداشت ہوتی اس نے ایک خطرناک منصوبہ تیار کیا، تبلیغی اجتماع کے خاتمہ کے دن جب چاروں طرف ہزاروں مسلمان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو رہے تھے سیانہ تھانہ علاقہ میں گئو کشی کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا، ان کی منصوبہ بند سازش تھی کہ واپس جا رہے مسلمانوں کو گھیر کے مارا جائے، جواب میں مسلمان بھی ہاتھ اٹھائیں گے۔ پھر دہشت گردی کا الزام لگا کر معاملہ کو اور بگاڑ دیا جائے گا۔ چونکہ اس اجتماع میں ملک بھر کے مسلمان جمع ہوئے ہیں تو اس کی گونج ملک بھر میں لازمی طور سے سنائی دیگی۔ ہندو مسلم اختلاف بڑھےگا زبردست پولرائزیشن ہوگا اور سنگھ پریوار حسب سابق ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹ لے گا، کیونکہ اب تک کا ان کا یہی ریکارڈ رہا ہے کہ اس طرح کے تشدد کا سیاسی فائدہ سنگھ پریوار کو ملتا رہا ہے لیکن بلندشہر میں بازی پلٹ گئی۔
گائے جیسے معصوم جانور کو جس طرح یہ قاتل گروہ اپنی خون کی پیاس بجھانے کے لئے استمعال کر رہا ہے۔ اس کا بہت ہی گھناؤنا روپ بلندشہر میں دیکھنے کو ملا، ان کی سازش تھی کہ گائے کے گوشت کے ٹکرے گنّے کے کھیت میں ایسے ٹانگے جائیں کہ ہر راہ گیر کی نظر ان پر پڑے، اگر مسلمانوں نے گاۓ کا گوشت کھانے کے لئے کاٹا ہوتا تو اس کی یوں نمائش نہ ہوتی ویسے بھی گاۓ کو لے کر جو ماحول ہے اس میں اگر مسلمانوں کو اجتماعی خود کشی کرنا ہو تبھی کوئی گاۓ کاٹے گا۔
سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ یوگی حکومت اس معاملہ میں صاف طور سے فسادیوں کے ساتھ کھڑی ہے اسی لئے محکمہ پولس بھی انسپکٹر کے قاتل کی تلاش میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ فساد کی اس سنگین سازش پر سے پردہ فاش کرنے میں، اس سے قبل بڑا سے بڑا مافیہ سرغنہ بھی پولس والوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتا تھا کیونکہ تب پورا پولس محکمہ اس کے پیچھے پڑ جاتا تھا اور اسے چوہے کے بل سے بھی نکال کر کیفر کردار تک پہنچا دیتا تھا، لیکن اب اس ملک میں خاص کر اتر پردیش میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، کیونکہ اب وزیر اعلی یوگی کی اولیں ترجیح گائے کاٹنے والوں کی گرفتاری ہے، اسی لئے میرٹھ رینج کے انسپکٹر جنرل نے کہا ہے کہ وہ گئو کشی کرنے والوں کو تلاش کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے اس سازش کا پردہ فاش ہوگا۔ جبکہ کندن نام کے ایک شخص کا گاۓ کاٹتے ہوئے فوٹو وائرل ہوا تھا جسے فوراً ہی ہٹا دیا گیا، اس کی فوٹیج ضرور پولس کے پاس ہوگی، اس سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے، قتل کے سلسلہ میں نامزد لوگ اپنے بیان سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں، انہیں سرولانس کے ذریعہ انھیں پکڑا جا سکتا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق وہ دہلی میں کسی وزیر کے یہاں مقیم ہیں مگر پولس انھیں پکڑنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے، پولس کے اعلی افسران بے شرمی کی چادر اوڑھے اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارہ پر ناچ رہے ہیں۔
Published: undefined
سبکدوش افسران اس صورت حال سے فکر مند ہیں ریاست کے دو سابق پولس سربراہان وکرم سنگھ اور جین نے ٹیلی ویژن مباحثہ میں صاف کہا کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد تو ریاست کی جیلیں ان ملزموں سے بھر جانی چاہیے تھیں، لیکن یہاں تو ایک دم سناٹا ہے لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں، پولس اور انتظامیہ اپنے سیاسی آقاؤں کے سامنے عرصہ سے دم ہلاتی رہی ہیں لیکن جس بے شرمی اور بے حسی کا مظاہرہ موجودہ حکومت کے سامنے موجودہ پولس اور انتظامیہ کے افسران کر رہے ہیں وہ بے مثال ہے۔
ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر وجے شنکر سنگھ نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ پولس فورس میں یونین نہیں ہوتی نچلے عملہ کے پاس اپنی شکایت کے ازالہ کا کوئی پلیٹ فارم بھی نہیں ہوتا، ان کے پاس صرف ان کے اعلی افسران ہوتے ہیں جو ان کے افسر ہی نہیں بلکہ سرپرست بھی ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے ماتحت عملہ کے جذبات اور احساس کا ایک سرپرست کی طرح خیال رکھتے ہیں، تبھی انھیں عزت اور احترام ملتا ہے اور ان کے حکم پر نچلا عملہ اپنی جاں کی بازی لگا دیتا ہے، اگر اس طرح نچلے عملہ کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جائے تو وہ بغاوت کر سکتے ہیں۔
اس وقت اتر پردیش میں کم و بیش ایسے ہی حالات بن گئے ہیں نچلا عملہ اپنے افسروں کی بے حسی سے نالاں ہے حالانکہ اسے بھی ہندوتوا کی افیم کھلا کے خواب خرگوش میں رکھا جا رہا ہے لیکن شہید انسپکٹر کے سلسلہ میں حکومت اور اپنے افسروں کے رویہ سے ان میں سگبگاہٹ ہے جو آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined