خواتین کے لیے ’ماہواری تعطیل‘ (حیض کے وقت چھٹی) کے تعلق سے سپریم کورٹ میں آج انتہائی اہم بحث ہوئی۔ پیر کے روز اس تعلق سے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ریاستوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ مشورہ کر کے ’ماہواری تعطیل‘ پر ایک گائیڈلائن تیار کرے۔
Published: undefined
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے خواتین کے لیے ’ماہواری تعطیل‘ کو پالیسی سے جڑا ایشو قرار دیا اور کہا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر عدالتوں کو غور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر خواتین کے لیے ایسی چھٹی دیے جانے کا فیصلہ عدالت کرتی ہے تو اس کا اثر منفی بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے، کیونکہ کمپنی انھیں کام دینے سے پرہیز کر سکتی ہے۔ یعنی ماہواری تعطیل سے متعلق فیصلہ کے بعد خواتین کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
عدالت نے آج سماعت کے دوران عرضی دہندہ سے سوال کیا کہ تعطیل خواتین کو زیادہ سے زیادہ وَرک فورس کا حصہ بننے کے لیے کس طرح حوصلہ بخشے گا؟ ساتھ ہی بنچ نے کہا کہ اس طرح کی چھٹی لازمی قرار دیے جانے سے خواتین کو وَرک فورس سے دور کیا جا سکے گا، اور ہم ایسا نہیں چاہتے۔ بنچ نے مزید کہا کہ یہ حقیقی معنوں میں حکومت کی پالیسی کا پہلو ہے۔ اس پر عدالتوں کو غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
حالانکہ بنچ نے اس معاملے میں عرضی دہندہ اور وکیل شیلندر ترپاٹھی کی طرف سے پیش وکیل راکیش کھنہ کو وزارت برائے ترقیٔ خواتین و اطفال کے سکریٹری اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دے دی۔ بنچ نے کہا کہ ’’ہم سکریٹری سے پالیسی سطح پر معاملے کو دیکھنے اور سبھی اسٹیک ہولڈرس سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ لینے کی گزارش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ماہواری تعطیل پر ایک گائیڈلائن تیار کی جا سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined