آر ایس ایس کے ذریعہ کرایا گیا شادی شدہ اور ’لیو-اِن‘ میں رہنے والی خواتین پر مبنی سروے تنازعہ کا شکار ہو گیاہے۔ کئی خواتین نے آر ایس ایس کے سروے کی سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ دراصل آر ایس ایس کے سروے میں کہا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین، لیو-اِن میں رہنے والی خواتین سے زیادہ خوش رہتی ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں خواتین کا کہنا ہے کہ یہ سروے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے ان اعداد و شمار کو جھٹلاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ خواتین کو گھریلو تشدد کا کہیں زیادہ شکار ہونا پڑتا ہے۔
Published: undefined
دراصل پونے واقع آر ایس ایس سے منسلک ایک تنظیم ’درشٹی ادھیین پربودھن کیندر‘ نے ’ہندوستان میں خواتین کی حالت‘ پر سروے کیا ہے۔ سروے کے نتیجوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خوش رہنے والی خواتین میں شادی شدہ خواتین کا فیصد کہیں زیادہ ہے جب کہ لیو-اِن رشتوں میں رہنے والی خواتین کا اوسط سب سے کم ہے۔ اس سروے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے آر ایس ایس کی تنظیم نے یہ دلیل دی کہ چونکہ شادی سے رشتے میں استحکام آتا ہے اس لیے اس سے کسی شخص کی خوشی یا مسرت کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
سروے میں اخذ کیا گیا ہے کہ خوشی کی سطح خواتین کی عمر، اس کی تعلیم اور اس کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے پر منحصر کرتا ہے، لیکن اس خوشی کا آمدنی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خواتین سب سے زیادہ خوش ہیں جنھوں نے دنیاوی خواہشات کو چھوڑ دیا ہے یا روحانیت اختیار کر لی ہے۔
Published: undefined
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس سروے میں ملک کی 29 ریاستوں کے 465 اضلاع کو احاطے میں لیا گیا اور 43225 خواتین سے بات چیت کی گئی۔ سروے دسمبر 2017 سے دسمبر 2018 کے درمیان کیا گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سروے میں صرف 29 ایسی خواتین شامل کی گئیں جو لیو-اِن رلیشن شپ میں تھیں۔
Published: undefined
نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن کی جنرل سکریٹری اینی راجہ اس سروے کو بکواس قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’کسی بھی رشتے کی کامیابی کی بنیاد آپسی عزت ہے، وہ شادی شدہ زندگی میں ہو یا لیو-اِن رلیشن میں۔ اگر آپس میں ایک دوسرے کی عزت نہیں ہوتی ہے تو رشتہ بھی نہیں رہتا ہے۔ کسی بھی رشتے میں شامل دونوں اشخاص کو ایک دوسرے کا دھیان رکھنا چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’میں 30 سال سے لیو-اِن رشتے میں ہوں، اور خوش ہوں۔‘‘
Published: undefined
اینی راجہ کہتی ہیں کہ ’’آر ایس ایس سے منسلک جس تنظیم نے سروے کرایا ہے وہ کند ذہنیت کی تشہیر کر رہی ہے، جس میں خواتین کی جگہ یا تو رسوئی میں ہے یا پھر پوجا گھر میں۔ ان کی سوچ خواتین کو الگ تھلگ کرنے کی رہی ہے اور اس سے جڑے لوگ مانتے ہیں کہ سبھی خواتین نے اسے قبول کر لیا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ آخر خوشی کی بنیاد کیا ہے، ہر کسی کے لیے خوشی کی وجہ اور بنیاد الگ الگ ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
اینی بتاتی ہیں کہ ’’سماجی شرم و حیا کی وجہ سے بہت سی خواتین بے حد خراب ہو چکے ازدواجی رشتے میں بندھی رہ جاتی ہیں کیونکہ اگر وہ واپس آنا چاہیں تو ان کی فیملی انھیں قبول نہیں کرتی۔ ساتھ ہی انھیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ ان کی موجودگی سے خاندان کی دوسری لڑکیوں کے لیے رشتے نہیں ملیں گے۔‘‘
Published: undefined
حقوق انسانی کارکن کویتا شریواستو بھی آر ایس ایس کے سروے کو سرے سے مسترد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’دراصل یہ سروے گھریلو تشدد پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔ آخر بغیر شادی کے خواتین اپنی جنسی خواہشات کو کیسے ظاہر کریں گی۔ آر ایس ایس تو خواتین کو صرف بچہ پیدا کرنے کا ذریعہ مانتا ہے۔ وہ بھی صرف ہندو راشٹر میں یقین کرنے والے۔ ظاہر ہے کہ وہ خواتین کے جذبات کو سمجھنا نہیں چاہتے، اسی لیے ان کے لیے صرف شادی ہی واحد راستہ ہے۔‘‘ کویتا بتاتی ہیں کہ یہ سروے تو این سی آر بی (نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو) کے اعداد و شمار کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ این سی آر بی کے سروے میں صاف کہا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین پر مظالم زیادہ ہوتے ہیں۔
Published: undefined
سروے کے بارے میں کانگریس لیڈر شرمشٹھا مکھرجی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’آر ایس ایس کا نظریہ اور دنیاوی سمجھ خواتین کی آزادی کے خلاف ہے۔ وہ خواتین کو صرف ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔‘‘ شرمشٹھا اس سوچ کا موازنہ نازی جرمنی سے کرتی ہیں جس میں چار سے زیادہ بچوں کو جنم دینے والی خواتین کو انعام دیا جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ مردانہ ذہنیت والے سماج کا عروج ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف جنسی تفریق اور فرقہ واریت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ خواتین کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
شرمشٹھا مکھرجی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عصمت دری ہندوستان میں نہیں، صرف انڈیا میں ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ خواتین صرف بچوں کو جنم دینے کا ہی کام کریں۔ شرمشٹھا یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’ان کی سوچ جابرانہ ہے۔ بی جے پی لیڈروں کی بھی یہی سوچ ہے۔ یاد ہوگا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کھٹر نے کہا تھا کہ خواتین آزادی چاہتی ہیں تو وہ ننگی گھومیں۔ یہ سب ایک گھٹیا سوچ ہی ہے جس کی جڑیں آر ایس ایس میں گہرائی تک جمی ہیں۔‘‘
Published: undefined
خاتون کانگریس کی جنرل سکریٹری اپسرا ریڈی بھی آر ایس ایس کے سروے کی تنقید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’یہ خواتین کو ایک خانے میں بند کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’ اس ملک نے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مانا ہے کہ خواتین کو اپنی مرضی سے شادی کرنے یا لیو-اِن رشتہ میں رہنے یا پھر تنہا رہنے کی آزادی ہے، تو پھر یہ کون ہوتے ہیں ایسا کہنے والے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز