نئی دہلی: جماعت اسلامی حلقہ دہلی کے شعبہ خواتین کی جانب سے جمعہ کے روز ’میڈیا میں خواتین‘ کے عنوان سے ایک مباحثہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مباحثہ میں مختلف میڈیا اداروں میں کام کر رہی خاتون صحافیوں کے علاوہ صحافت کی طالبات اور دیگر شعبوں سے وابستہ خواتین نے شرکت کی۔ یہ مباحثہ مرکز جماعت اسلامی ہند کے ابولفضل انکلیو، اوکھلا میں واقع دفتر پر منعقد ہوا۔
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
جماعت اسلامی کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق، مباحثہ کی صدارت کرتے ہوئے شعبہ خواتین کی اسسٹنٹ سیکریٹری رحمت النساء نے کہا ’’ آج خواتین اپنے کیرئیر کے طور پر صحافت کا انتخاب کر رہی ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کا پورا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اکثر صحافیاؤں کو ان کی صلاحیتوں کے برعکس کمتر کاموں میں لگا دیا جاتا ہے اور کم اہمیت والے حلقوں میں ان سے رپورٹنگ کرائی جاتی ہے۔‘‘
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
نیشنل ہیرالڈ/ قومی آواز کی صحافیہ ایشلِن میتھیو نے میڈیا میں خواتین کی تعداد پر اعداد و شمار کی روشنی میں کہا کہ خاتون صحافی شاید ہی کبھی سیاسی اہمیت کی حامل رپورٹ کر پاتی ہیں۔ انہوں نے سروے رپورٹ کی روشنی میں کہا کہ خاتون صحافی صرف 32 فیصد ہی خبریں کوور کر پاتی ہیں۔ تاہم خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کچھ صحافیاؤں نے خود کے لئے جگہ بنائی ہے اور وہ خالص سیاسی ایشوز پر رپورٹنگ کر رہی ہیں۔‘‘
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
دی ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ خاتون صحافی اریبہ فلک نے میڈیا کے ذریعہ عورتوں کی کردار کشی اور اسے پیش کرنے کے طریقے پر سوال اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ ٹی وی کے اشتہارات عورتوں کو ایک مادی وسائل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان کے اصل مسئلے اور ایشوز پر ٹھیک سے بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اداروں میں تفریق کا عام ماحول ہے جس سے انھیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
تہلکہ میگزین کی ذکیہ جعفری نے صحافیاؤں کے کام کے دوران ہونے والی پریشانیوں اور مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میڈیا کے ادارے کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے یہاں کام کر رہی صحافیاؤں کی سیکورٹی کو بہتر بنائے اور اسے ہر طرح سے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ خواتین کی آواز تبھی سنائی دے گی جب اس کی نمائندگی پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بہتر انداز سے ہو ساتھ ہی لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
صحافیہ عظمیٰ اشرف نے مسلم اور دیگر کمزور طبقہ کے صحافیاؤں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لئے آزمائشوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے۔ گھر سے آفس اور اپنے کاموں کے تمام مقامات پر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ میڈیا کی طالبہ عائشہ اور فرخندہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین حجاب پہن کر کیوں نیوز ریڈر اور اینکرنگ نہیں کر سکتی؟ کیوں مسلم خواتین کو میڈیا میں جانبدارانہ رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
اس مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے خواتین شرکاء نے کہا کہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ایسی گفتگو ہمیشہ منعقد کرنی چاہئے ساتھ ہی عورتوں کو اپنی اسلامی شعار کے ساتھ اس میدان میں بہتر انداز سے نمائندگی کرنی چاہئے۔ آج عورتوں کو جس طریقے سے میڈیا پیش کر رہی ہے وہ کافی تکلیف دہ ہے ساتھ ہی مسلم خواتین کو صرف چند ایک مسئلے تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
پروگرام میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہمیں تعلیم کے میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیا کے میدان میں عورتوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔
پروگرام کی نظامت جوویریا ریمی نے کی۔ حلقہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری عطیہ صدیقہ، دہلی کی سیکریٹری یاسمین، جی آئی او کی صدر نکہت فاطمہ اور دہلی کی صدر شائستہ رفعت نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Nov 2019, 9:11 PM IST