چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نےحال ہی میں ایک پینل ڈسکشن ’رائسینا ڈائلاگ 2020‘ میں بولتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں ایسے کیمپ چل رہے ہیں جہاں انتہا پسندی کے شکار لوگوں کو سدھارنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جو بچے پوری طرح انتہا پسند ہو گئے ہیں ان کو سدھارنے کے لئے کیمپوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعدشہریت ترمیمی قانون کے خلاف سڑکوں پر اترے لوگوں نے جنرل راوت کی نیت پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔کیا شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سڑکوں پر اترے طلباء انتہا پسندی کے زمرے میں آتے ہیں ؟
Published: undefined
ان کے اس بیان پر اپنا رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کیا کہ ’’لنچنگ کرنے والے اور ان کے آقاؤں کو کون سدھارے گا؟ان کے بارے میں کیا رائے ہے جو آسامی بنگالی مسلمانوں کو شہریت دینے کی مخالفت کر رہے ہیں ؟ ’بدلہ ‘لینے والے یوگی اور میرٹھ کے ایس پی جو ’پاکستان جاؤ‘ کہتا ہے ان کو سدھارا جائے؟ان کو سدھارا جائے جو این پی آر کے ذریعہ ہم پر سختیاں کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا عوام پر این پی آر اور این آر سی تھوپنے والوں کو ان کیمپوں میں بھیجا جائے گا؟
Published: undefined
واضح رہے کہ بپن راوت نے کہا تھا کہ ’’جو لوگ پوری طرح انتہا پسند بن چکے ہیں انہیں انتہا پسندی کے خلاف چل رہے پروگراموں میں شامل کرنا ہوگا۔ جمو ں و کشمیر کے لوگوں کو انتہا پسند بنایا گیا ہے۔ 12 سال کے لڑکے لڑکیوں کو بھی انتہا پسندی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے اور ان کو انتہا پسندی سے دھیرے دھیرے دور کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے ڈی ریڈیکلائزیشن (De-Radicalisation) کیمپ بنانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیمپ پاکستان میں بھی چل رہے ہیں۔ راوت نے یہ بیان ایک تو ایسے وقت دیا ہے جب جے این یو کے ساتھ کئی یونیورسٹی کے طلباء اپنے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں تو کیا یہ طلباء انتہا پسندی کے زمرے میں آئیں گے ؟ کیا ان کے لئے یہ چھپی ہوئی دھمکی ہے ؟ دوسرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے اقدام کو جائز ٹھہرانے کے لئے کیا پاکستان کی مثال کی ضرورت ہے ؟ کیا ہندوستان پاکستان ہے؟
Published: undefined
ادھر معروف صحافی راج دیپ سردیسائی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’ڈٹینشن کیمپ کو بھول جائیے، اب ہمارے سی ڈی ایس بچوں کے لئے ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپوں کی بات کر رہے ہیں، کیا ہو گیا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ بپن راوت کا یہ پہلا متنازعہ بیان نہیں ہے۔ انہوں نے فوجی سربراہ ہوتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون پر بھی ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔ اویسی نے بھی ٹویٹ کر کے کہا کہ ’’یہ ان کا (بپن راوت) کا پہلے مضحکہ خیز بیان نہیں ہے۔ پالیسی کا فیصلہ عوامی انتظامیہ کرتی ہے کوئی جنرل نہیں۔ پالیسی اور سیاست پر بات کر کے بپن راوت عوامی کنٹرول کو کم کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز