ایک طرف گیانواپی مسجد احاطہ کا سروے جاری ہے، اور دوسری طرف گیانواپی مسجد سے جڑی کچھ عرضیاں عدالت میں سماعت کا انتظار کر رہی ہیں۔ ایک معاملہ گیانواپی مسجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنے سے متعلق ہے جس پر آج وارانسی ضلع عدالت میں سماعت ہوئی۔ دراصل ہندو فریق سے راکھی سنگھ کی اپیل پر احاطہ میں موجود ہندو نشانات اور علامات کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ انجمن انتظامیہ کمیٹی اور نماز پڑھنے والے اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔
Published: undefined
عرضی دہندہ راکھی سنگھ کی طرف سے ان کے وکیل سوربھ تیواری نے عدالت سے نماز ادا کرنے والوں کی تعداد محدود کرنے کے لیے ایک اصول بنانے کی گزارش کی ہے۔ پہلے یہ معاملہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں تھا، لیکن جب وہاں یہ معاملہ سماعت کے لیے آیا تو ججوں نے کہا کہ یا تو آپ اپنی عرضی واپس لے لیجیے یا پھر ہم اسے خارج کر دیں گے۔ اس کے بعد راکھی سنگھ نے عرضی واپس لیتے ہوئے ایک نئی اپیل لے کر وارانسی ضلع کورٹ پہنچ گئی ہیں۔
Published: undefined
راکھی سنگھ کی عرضی پر آج وارانسی ضلع عدالت میں سماعت ہوئی۔ ان کی طرف سے ایڈووکیٹ سوربھ تیواری نے بحث کی، جبکہ ہندو فریق کی باقی چار خواتین کی طرف سے وشنو شنکر جین نے بحث کی۔ انجمن انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے وکیل ممتاز احمد اور رئیس احمد پیش ہوئے۔ اس معاملے میں مسلم فریق کی طرف سے کہا گیا کہ انھوں نے ابھی تک عرضی نہیں پڑھی ہے۔ وہ پہلے عرضی پڑھیں گے، اس کے قانونی پہلوؤں کو سمجھیں گے اور پھر اس کے بعد اپنا جواب داخل کریں گے۔ اس کے لیے انھیں وقت دیا جائے۔
Published: undefined
وشنو شنکر جین کی طرف سے بھی عرضی کی کاپی مانگی گئی ہے۔ اس کے بعد ہندو فریق کی چاروں خواتین (لکشمی دیوی، سیتا ساہو، منجو ویاس اور ریکھا پاٹھک) کو بھی کاپی دی گئی۔ عدالت کی طرف سے سماعت کے لیے اگلی تاریخ 22 اگست طے کی گئی ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ وارانسی کے گیانواپی احاطہ میں ان دنوں اے ایس آئی کا سروے چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ سائنٹفک سروے ہو رہا ہے۔ 60 اراکین کی سروے ٹیم یہ پتہ کرنے میں مصروف ہے کہ گیانواپی مسجد کی تعمیر کب ہوئی؟ کیا پہلے یہاں کوئی دیگر عمارت تھی؟ اگر ایسا ہے تو اس کی تعمیر کب ہوئی تھی؟ گیانواپی احاطہ کی بناوٹ کس طرز کی ہے؟ وارانسی کی ضلع عدالت نے اے ایس آئی کو 2 ستمبر تک سروے رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز