حکومت کو کہ وہ ملک کو یہ بتائے کہ نوٹ بندی کے بعد امیروں کی دولت میں ریکارڈ توڑ اضافہ کیوں ہو گیا؟ حکومت کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ عام لوگوں کی ان امیدوں کا کیا ہوا ،جو اس نے کالا دھن ملنے کے بعد لگائی تھیں؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے جب نوٹ بندی کا اعلان کیا تو ہمیں یہ یقین دلایا گیا کہ اس کے ذریعے بھاری تعداد میں جمع کالے دھن کو سامنے لایا جائے گا اور دہشت گردی، نکسل ازم اور جعلی نوٹوں پر لگام لگے گی۔ بعد میں معیشت کو ڈجیٹل بنانے کا مقصد اور جوڑ دیا گیا ۔ ساتھ ہی عوام کو بھروسہ دلایا گیا کہ اس فیصلہ سے امیروں کو نقصان ہوگا اور غریب خوشحال ہوں گے۔ لوگوں نے اس وقت سوچا کہ اگر یہ سب مقاصد پورے ہو جائیں گے تو تھوڑی تکلیف سہہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس تکلیف میں زندگی اور روزگار گنوا دینا بھی شامل تھا لیکن بڑے مقاصد کو حاصل کرنے میں کچھ قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔
لوگوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ کم سے کم 150 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نوٹ بندی کے بعد کی ایک سہ ماہی میں ہی کم سے کم 15 لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں ۔جی ڈی پی کی شرح ترقی دو فیصد گر گئی جیسی کہ ہمارے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پیشین گوئی کی تھی ۔ لیکن کیا حکومت نے اس سمجھوتے کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کی؟
نوٹ بندی کا ایک سال پورا ہونے کے بعد ہم سبھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ حکومت نے جو مقاصد گنا ئے تھے ان میں سے کوئی پورا نہیں ہوا۔ بند کی گئی تقریباً ساری کرنسی بینکوں میں واپس لوٹ آئی ہے، کشمیر کے حالات مسلسل کشیدہ ہیں اور جعلی کرنسی کا مسئلہ بھی بدستور موجود ہے۔ لیکن جس مقصد نے سب سے بڑا دھوکہ دیا وہ غریب بنام امیر کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نوٹ بندی کالے دھن کو ختم کرنے کے لئے کی گئی ہو لیکن اس نے آمدنی کے فرق کو بڑھا دیا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد سے آمدنی کا یہ فرق آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ایک سال میں ملک کے سب سے زیادہ امیر لوگوں کی آمدنی میں 26 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ کسانوں کی آمدنی گر کر محض ایک فیصد ہی بڑھ سکی۔ غیر زرعی علاقوں میں کام کر رہے لوگوں کے لئے تو شرح ترقی منفی ہو چکی ہے۔
اسے المیہ کہیں یا پھر اتفاق کہ نوٹ بندی کے بعد ہمارے ملک کے ارب پتیوں کی املاک میں 26 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ آزادی کےبعد کسی ایک سال کے اندر ہونے والے اضافے میں یہ ایک ریکارڈ ہے۔ ہمارے ملک کے سب سے امیر شخص مکیش امبانی کی املاک میں 67 فیصد یعنی ایک لاکھ کروڑ کا اضافہ ہوا اور وہ ایشیا کے 5سب سے زیادہ امیر وں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ گوتم اڈانی کی املاک میں بھی اضافہ ہوا اور وہ ہندوستان کے سرفہرست 10 امیروں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کی آمدنی 40 ہزار کروڑ سے بڑ ھ کر 71 ہزار کروڑ ہو گئی ہے۔
’آکس فیم ‘ نے رواں سال کے آغاز میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کی ایک فیصد آبادی ملک کی تقریباً 58 فیصد املاک کی مالک ہے۔ اتنا ہی نہیں ملک کے 57 ارب پتیوں کے پاس جتنی دولت ہے وہ نیچے کے 70 فیصد لوگوں کے پاس موجود کل دولت کے برابر ہے۔ یہ آزادی کے بعد سے اب تک امیر غریب کے درمیان غیر مساوات کی اعلیٰ ترین سطح ہے۔
دوسری جانب زرعی اور غیر زرعی علاقوں میں کام کرنے والے مزدور وں کا بھتہ جو یو پی اے کے دور اقتدار میں 7 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہا تھا وہ اب محض ایک فیصد کی معمولی شرح سے بڑھ رہا ہے (یہ 2014 سے اب تک کے 3 سالوں کا اوسط ہے)، جبکہ غیر زرعی مزدوروں کا بھتہ پہلے سے کم ہو گیا ہے۔
سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کا وعدہ پورا نہ کرنے سے کم از کم ح سپورٹ پرائس میں ناکافی اضافے نے ملک کے دیہی علاقوں کے کسانوں کی بے چینی بڑھا دی ہے ۔ اس کے بعد بغیر سوچے سمجھے لاگو کی گئی نوٹ بندی سے کسانوں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ پچھلے 6 ماہ میں ملک بھر میں چلائی گئی کسان تحریکوں کی تعداد سے ہی اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ فی الحال تھوڑا سکون صرف اس لئے ہے کہ پنجاب، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش کی حکومتوں نے کسانوں کے حق میں کچھ قرض معافی کا اعلان کر کے تھوڑی راحت دی ہے۔ لیکن ریاستوں کے پاس شاید ہی اتنی اقتصادی قوت ہو کہ وہ اتنی اونچی سطح پر پہنچ چکے عدم اطمینان کو ختم کر سکیں۔
اب یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ نوٹ بندی نے امیر ترین لوگوں کو پچھلے دروازے سے فائدہ پہنچایا جبکہ غریبوں کا سب سے زیادہ نقصان کیا۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ حکومت نوٹ بندی کی 3 اعلان شدہ وجوہات پر کتنی کھری اتری۔
کالے دھن کو ختم کرنا نوٹ بندی کی سب سے بڑی وجہ تھی اور ایس بی آئی نے یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ 2.5 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن بینکوں میں واپس نہیں آ ئے گا۔ متعدد سیاسی تقاریر کی گئیں کہ کس طرح اس پیسے کو غریبوں اور کسانوں کے حق میں استعمال کیا جائے گا۔ کالے دھن سے نمٹنے کے لئے نوٹ بندی کا فیصلہ کرنے کی صداقت پر اس بات سے ہی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم جانتے تھے کہ صرف 6 فیصد کالا دھن نقد کے طور پر ہے۔ اس لئے اگر وہ کالا دھن بینکوں میں واپس نہیں بھی آ پاتا تو بھی ہم کالے دھن کے مسئلہ کومحض 6 فیصد سے نمٹ رہے تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم لوگ سانس روک کر آر بی آئی کی طرف سے پریس کو دی جانے والی اطلاع کا انتظار کر رہے تھے۔
اب ہم جانتے ہیں کہ 99 فیصد بند ہو چکے نوٹ بینک میں واپس آ چکے ہیں اور صرف 16 ہزار کروڑ یا سرسری طور پر اوسطاً ہر شہری کے 128 روپے بچے رہ گئے۔ سارے کالے، سفید، مٹ میلے نقد پیسے ہندوستان کی صاف کرنسی میں تبدیل ہو چکے ہیں اور کالے دھن کا ایک روپیہ بھی تلاش کئے بغیر ہمارا ملک ’زیرو بلیک منی ‘ہو گیا ہے۔ در اصل سارے چور اپنے پیسے کو نظام کی کمیوں کا استعمال کر کے بینکوں میں جمع کرانے میں کامیاب ہو گئے اور حکومت کے پاس چھپانے کے لئے بھی جگہ نہیں بچی ہے۔ اب حکومت جمع کئے گئے ’مشکوک‘ پیسے کا نام لے کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس ساری گڑبڑی سے باوقار نکلنے کی حکومت کی امید اس وقت ختم ہو گئی جب ’غریب کلیان یوجنا ‘بھی کھوٹا سکہ ثابت ہوئی۔ تقریباً 21 ہزار لوگوں نے 4 ہزار 900 کروڑ وپے کی غیر اعلانیہ آمدنی کا اعلان کیا اور اس سے حکومت کو 2 ہزار 451 کروڑ روپے ٹیکس میں حاصل ہوئے ۔ یہ پیسہ اتنے بڑے پیمانے پر چلائی گئی اس پورے عمل کے لئے بھی کافی نہیں تھا۔
حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی نظام سے نقلی نوٹوں کو نکالنے کے لئے ضروری تھی لیکن اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ این آئی اے کا اندازہ ہے کہ صرف 400 کروڑ روپے کے نقلی نوٹ ہی چلن میں موجود تھے۔ نوٹوں کی گنتی ہوئی تو صرف 11 کروڑ کے نقلی نوٹ ہی برآمد ہوئے جو بازار میں موجود کرنسی کا محض 0.00053 فیصد ہے۔
اب ہم دہشت گردی کے سوال پر آتے ہیں ۔ حکومت کو امید تھی کہ نوٹ بند ی سے اس پر قابل ذکر اثر پڑے گا ،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کشمیر میں ’’ 2016 کےگزشتہ 7 سالوں میں سب سے زیادہ تشدد ہوا ۔ اس سال اب تک 290 جانیں جاچکی ہیں جس میں حفاظتی اہلکاروں کے 65 لوگ اور 49 شہری مارے گئے ہیں ۔ ‘‘ اس سے ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔‘‘
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن مقاصد کا حوالہ دے کر یہ منصوبہ شروع کیا گیا تھا اس سے ہمیں دھوکا ہی ملا ہے۔ میں اس عظیم ملک کے ایک شہری کے طور پر حکومت کی طرف سے لئے گئے نوٹ بندی کے اس غلط فیصلہ کی برسی پر حکومت سے دو جواب چاہتا ہوں۔
حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ نوٹ بندی کے بعد کے سال میں امیروں کی دولت میں اتنا اضافہ کس طرح ہو گیا (آزادی کے بعد ریکارڈ تیزی) جبکہ عام لوگوں کی اس ا مید کو زیادہ دھچکا پہنچا کہ کالے دھن کے ملنے سے انہیں کچھ فائدہ ہوگا۔
حکومت کو یہ بتاتے ہوئے ایک وائٹ پیپر لانا چاہیے کہ اس نوٹ بندی سے جس نے ہماری معیشت کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا ، کتنا کالا دھن حاصل ہوا۔ اس وائٹ پیپر میں کچھ باتیں اس مدے پر بھی ہونی چاہیئں کہ کب تک ہندوستانی شہریوں کو کالے دھن سے ملے پیسے کا حصہ یا چناؤ میں کئے گئے وعدے کے مطابق 15 لاکھ روپے ملیں گے۔ ان میں سے جو بھی کم سے کم رقم ہے وہ حکومت کب تک دینے کا اعلا ن کرے گی؟
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined